السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
 علماء کرام کے بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ اگر کسی آدمی میں شادی کی حیثیت نہ ہو یا ایسی کمزوری ہو کہ شادی کے لائق نہ ہو اور اس کے والد صاحب زبردستی شادی کرائے تو اس صورت میں وہ شخص کیا کرے؟ 
سائل؛ غلام معین الدین دربھنگہ 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب 
اگر واقعی اس شخص کو یقین ہے کہ مجھ میں نکاح کی طاقت اور شادی کی حیثیت نہیں ہے تو اسے نکاح کرنا قطعاً جائز نہیں ہے. 
کیوں کہ نکاح کرنا جس طرح کبھی فرض ، واجب اور سنت ہوتا ہے اسی طرح کبھی مکروہ اور حرام بھی ہوتا ہے 
قاضی القضات فی الہند فقیہ عصر حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بہار شریعت میں در مختار کے حوالہ سے رقم فرماتے ہیں کہ اگر یہ اندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان و نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں پورا نہ کرسکے گا تو نکاح کرنا مکروہ ہے اور اگر ان باتوں کا یقین ہے تو نکاح کرنا حرام ہے (بہار شریعت جلد دوم حصہ ہفتم صفحہ 5 دعوت اسلامی) 
 لہذا بیٹا اپنی حیثیت باپ کو بتائے اور نرمی سے سمجھائے ان شاءاللہ عزوجل باپ مان جائے گا اور زور زبردستی سے باز اجائے گا، آخر اسے بھی تو رسوائی کا ڈر ہوگا 
اور والد پھر بھی نہ مانے تو جان لیں کہ حالت مجبوری میں شادی نہ کرنے کا حکم شریعت کا ہے اور شریعت میں طبیعت کا دخو ناقابل قبول ہے یعنی باپ شرعی حدود سے تجاوز کا حکم دے تو اسمیں باپ کی اطاعت نہیں کی جائگی 
واللہ اعلم و رسولہ 

کتبہ؛نصیرالدین مقیم حال سعودی عرب 
(۱۰ رجب المرجب ۱۴۴۲ھ بروز منگل)
 منتظمین فخر ازھر گروپ