السلام علیکم و رحمۃ الله وبركاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے دوران گفتگو "جے شری رام" کہا، تو وہاں ایک عالم بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے فتویٰ دیا کہ زید اس نعرہ کے سبب کافر و مرتد ہوگیا ہے، اسکا اس وقت تک بائیکاٹ کیا جائے گا جب تک کہ یہ توبہ نہ کرلے،
اب سوال یہ ہے کہ حق پر کون ہے؟ مدلل قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں!
المستفتی؛ اظھاراحمد رضوی گونڈہ
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب۔بعون الملک الوھاب
مقولۂ مسئولہ یعنی "جے شری رام" کا کسی مسلمان کے بولنے کی شرعاً تین حیثیتیں ہیں،
(اول) یہ کہ برضا و رغبت یا تمسخرًا و استہزاءً بغیر کسی اکراہِ شرعی و مجبوری یا بغیر حکایت و تمثیل کے ہو،
(دوم) یہ کہ اس کا بولنا بطورِ حکایت و تمثیل یا نقل ہو،
(سوم) یہ کہ جبر و اکراہِ شرعی پر بولنا ہو،
اول پر قائل پر کفر کا حکم ہے، خواہ تمسخرًا و استہزاءً ہی ہو اعتقادًا نہ ہو
جبکہ دوم و سوم پر حکمِ کفر نہیں،
پس عالم کا کہنا کہ زید اس نعرہ کے سبب کافر و مرتد ہوگیا، یہ قول اس وقت صحیح ہے جبکہ زید نے اول صورت میں ،، جۓ شری رام ،، کہا ہو، کیونکہ اس میں رام کی تعظیم ہے اور رام کافر ہے اور کسی کافر کی تعظیم جائز نہیں بلکہ کفر ہے،
زید بھلے ہی کہے کہ ہم نے مذاق میں کہا ہے مذاق میں بھی کفر کفر ہے ۔
ہاں اگر زید نے کسی بات کی تمثیل میں یہ کلمات نقلًا کہے ہیں تو کفر نہیں ہوگا، کیونکہ نقلِ کفر کفر نہیں ہوتا۔
جیسا کہ استاذ الفقہاء حضور فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد الامجدی علیہ الرحمة والرضوان تحریر فرماتے ہیں؛ جو بطور تمسخر اور ٹھٹھےکے کفر کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا اگرچہ کہتا ہو کہ میں ایسا اعتقاد نہیں رکھتا ۔
جیسا کہ در مختار باب المرتد میں ہے
،، من ھزل بلفظ کفر ارتدَّ و ان لم یعتقدہ للاستخفاف ،،
اور شامی جلد سوم صفحہ٢٩٣ پر بحر الرائق سے ہے
،، و الحاصل ان من تکلم بکلمة الکفر ھازلا او لاعبا کفر عند الکل ولا اعتبار باعتقادہ کما صرّح به فی الخانیة ،، (انوارالحدیث صفحہ ٩٠)
جیسا کہ حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمة و الرضوان تحریر فرماتے ھیں ،، بعض اعمال کفر کی علامت ہیں جیسے زُنّار باندھنا ،، سر پر چوٹیا رکھنا ،، قشقہ لگانا ،، ایسے افعال کے مرتکب کو فقہائے کرام کافر کہتے ہیں ۔
(بہار شریعت جلد اول حصہ اول صفحہ ٥٣)
تو ایسے ہی ہے "جے شری رام" کا بھی کہنا، بولنا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
،، و لاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ،، (پارہ ١٢ رکوع ١٠ سورہ ھود)
یعنی ظالموں کی طرف مَیل نہ کرو ورنہ تمہیں آگ چھوئے گی ۔
اور ارشاد باری تعالی ہے
"فاما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعد الذکریٰ مع القوم الظّٰلمین ۔
(پارہ ٧ رکوع ١٣ سورہ انعام)
یعنی اگر تجھے شیطان بھلا دے تو یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھو ۔
لھذا ۔۔۔۔ اگر زید نے یہ کلمات یونہی از روئے استہزاء کہا ہے تو توبہ و استغفار کرے اور تجديد ایمان اور بیوی والا ہو تو تجديد نکاح و تجديد بیعت کرے ۔ اور آئندہ ایسے کلمات کے کہنے سے پرہیز کرے ۔
اور اگر زید نے کسی بات کی تمثیل یا نقل میں یا حالتِ اکراہ و اضطرار میں "جے شری رام" کہا ہے تو عالم کا یہ کہنا کہ زید کافر و مرتد ہوگیا، سراسر غلط ہوگا ۔ کسی مسلمان کو فی الفور کافر نہیں کہہ سکتے جب تک کہ کفر ثابت نہ ہو جائے ۔ اب عالم صاحب پر توبہ و استغفار نیز تجديد ایمان و نکاح و بیعت لازم ہے ۔ اور آئندہ اس طرح کسی پر بغیر تحقیق کے کفر کا فتوی نہ دیں!
کیونکہ کفر سر زد ہونے کی صورت میں یا حکمِ کفر پلٹنے کی صورت میں توبہ و تجديد ایمان و تجدید نکاح و تجدید بیعت سب لازم آتا ہے ۔
وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام
بتھریاکلاں ڈومریا گنج
سدھارتھنگر یوپی
0 تبصرے