السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر عورت کلمۂ کفر کہے تو تجدیدِ نکاح ضروری ہے؟ 
برائے کرم حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں 
سائل امید علی راجستھان 

وعلیکم السلام ورحمة اللہ تعالیٰ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب 
ظاہر مذہب یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی مرتد ہو جائے تو اس کا نکاح فوراً فسخ ہوجاتا ہے. مگر اب فتوی اس پر ہے کہ عورت ارتداد کے سبب نکاح سے خارج نہیں ہوتی؛
جیساکہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اب فتوی اس پر ہے کہ مسلمان عورت معاذاللہ مرتد ہو کر بھی نکاح سے نہیں نکل سکتی؛ "ومن ذلک افتائی مرارا بعدم انفساخ نکاح امرأة مسلم بارتدادھا لما رایت من تجاسر ھن مبادرة الی قطع العصمة کما بینتہ فی السیر من فتاوانا وکم لہ من نظیر " یعنی اسی وجہ سے میں نے بارہا فتوی دیا کہ مسلمان کی بیوی کا نکاح اس کے مرتد ہونے سے فسخ نہ ہوگا کیونکہ میں نے عورتوں کو عصمت نکاح سے نکلنے میں جلد باز وجری دیکھا میں نے اسے اپنے فتاوی کی کتاب السیر میں بیان کیا اور اس کی بہت سی نظریں ہیں اھ (فوائد رضویہ حاشیہ فتاوی رضویہ ج 1ص393
اور مرتدہ عورت کے بارے میں دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہندہ مرتدہ کافرہ ہوگئ شوہر پر حرام ہوگئ جب تک توبہ کر کے اسلام نہ لائے اس سے جماع حرام ہے اس جماع سے جو اولاد ہوگی ولد الحرام ہوگی اگرچہ ولد الزنا نہ کہیں ہندہ پر فرض ہے کہ کلمۂ کفر سے توبہ کرے اور از سر نو مسلمان ہو اس کے بعد زید دو گواہوں کے سامنے اس سے دوبارہ نکاح کرے ملخصا اھ (فتاوی رضویہ ج 6ص138) 
لہذا صورت مسئولہ میں مرتدہ کے لئے توبہ واستغفار اور تجدید ایمان کے بعد تجدید نکاح بھی لازم و واجب ہے عورت اس کے شوہر کے جانب مجبور کی جاٸیگی ، لوٹاٸی جاٸیگی وہ کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی اور نہ ہی بنا تجدید نکاح اپنے شوہر کیلٸے حلال ہوگی نوٹ عورت کے ارتداد سے نکاح نہیں ٹوٹتا مگر دیگر احکام میں مثل مرتدہ ہی ہے جیسے جماع وغیرہ میں 
واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم 

کتبہ مفتی وصی احمد علوی صاحب 
بہرائچ شریف یوپی 
 (۳ شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ بروز بدھ)
 منجانب منتظمین فخر ازھر گروپ