دیوبندی مفتی حمید اللہ خان نے لکھا ہے کہ
علم غیب کی دو قسمیں ہیں
(1)علم غیب ذاتی
(2)علم غیب عطائی
پھر علم غیب عطائی
انبیاء کے لئے بھی مانا ہے اور اولیاء کے لئے بھی مانا ہے۔
(ارشاد المفتیین، جلد1، صفحہ161)
اب اس پر دار العلوم دیوبند کی مصدقہ کتاب میں گنگوہی جی کا فتوی بھی دیکھ لیں کہتا ہے کہ
اور یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو علم غیب تھا صریح شرک ہے۔
(داستان فرار، صفحہ 44)
دیوبندیوں کے غوث اعظم نے صریح شرک کہہ کر دیوبندیوں کی تمام تاویلات کو سمندر میں غرق کر دیا لیکن پھر بھی ہم دیوبندی گھر کی متفق کتاب کا حوالہ دے دیتے ہیں۔
دیوبندی انور شاہ کشمیری لکھتا ہے کہ؛
ان التاویل فی الصریح لایقبل
(اکفار الملحدين فی ضروریات الدین، صفحہ48)
جب دیوبندی مفتی علم غیب انبیاء کے ساتھ ساتھ اولیاء کے لئے بھی مان رہا ہے اور گنگوہی اس کو صریح شرک کہہ رہا ہے اور کشمیری تاویل کے سارے دروازے بند کر رہا ہے تو دیوبندی مفتی ایسا پکا ٹھکا مشرک ہوا جس کی کوئی تاویل بھی نہیں۔
ایک اور بات گنگوہی جی نے علم غیب کے اطلاق کو تاویل کے ساتھ بھی موہم شرک لکھا ہے (مفہوما)
سب دیوبندی وہابی ہی بتائیں کہ ان کے اکابرین یہ رنگ برنگی بولیاں کیوں بول رہے ہیں کہ ایک بات ایک دیوبندی کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیا اللہ کے لیے تسلیم کی جارہی ہے۔لیکن دوسرے کے نزدیک اس کو صریح شرک کہا جارہا ہے
جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی
0 تبصرے