تمام اہل تاریخ اس بات پر متفق ہیں کہ شیعہ میں سے کبھی کسی نے جہاد پر کمر نہیں باندھی، نہ کسی ملک کو کفار سے اپنے قبضے میں لاکر دار الاسلام کیا بنایا، اگر کبھی ریاست مثل مصر و شام کے ہاتھ بھی ائ تو کفار فرنگ سے مل کر اور دین عوض دنیا کے بیچ کر البتہ دار الاسلام کو دارالکفر کیا ہے، اسی سبب سے جس ملک میں اس مذہب بد کا رواج نہیں ہونے پایا ہے ہمیشہ وہاں کے لوگ غالب اور ذی شوکت اور ذی عزت رہے، 
چنانچہ توران و ترکستان اور روم اور ہند قبل ان کے خلط ملط ہونے سے کہ یہاں کے سلاطین نے بھی بکمال شوکت و عزت سلطنت کی ہے 
اور جس وقت کسی ملک میں رواج تشیع کا ہوا فتنہ اور فساد اور ذلت و خواری اور نفاق جو خمیر زوال دولت کا ہے فوج در فوج آسمان سے برسنے لگا 
اور کبھی درستی و صلاح نہ پائی، دیکھو حالات ایران، دکن اور ہندوستان کی اور حالت عرب، شام اور روم اور توران کی اور دونوں کو آپس میں تولو 
اکثر یہ بھی تجربہ ہوچکا ہے کہ جہاں تسلط شیعہ کا اتفاق پڑا ہے غلبہ کفار کا بھی ضرور اس کے پیچھے لگا ہے گویا مقررات سے ہے ان کا تسلط جہاں دیکھے تو ڈرے کہ قریب تسلط کفار کا ہوجائے گا- 
یہ لوگ کوچک ابدال کفار کے ہیں، بنگالہ اور دکن اور پورب اور دہلی اور دہلی کے نواح اور لاہور و پنجاب میں انہی بدکاروں روسیاہ کی نحوست سے کافر مسلط ہوئے ہیں اور سابق میں فتنہ تاتار و قتل اہل اسلام انہی قرامطہ اور اسماعیلہ کا غلبہ ہوا ہے اور اسی غلبہ میں فرقے رافضیوں کے عراقین اور بغداد اور حلہ اور کرخ میں پھیل گیے 
تحفہ اثنا عشریہ مترجم کید یازدھم 
جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی