اسلام اور چاند کا سفر میں مزید تحقیق کے ساتھ علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ چاند کے متعلق کچھ اہم تحقیق تحریر فرماتے ہیں جو ملاحظہ فرمائیں؛ ⇓
یہ امریکہ کی خبریں جو آئے دن آتی رہتی ہیں۔ اس فریب کاری سے مقصود یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذہن سے معجزہ شق القمر کی اہمیت نکال دی جائے کہ جب مسلمان ان چیزوں کو باؤ کر لیں گے تو اس کے بعد کہا جائے گا۔ کہ تمہارے نبی نے چاند کے دو ٹکڑے تو کر دیئے مگر اس میں ان کا تسلط اور قبضہ نہیں ہوا اوردیکھو یہ مٹی وہیں کی تو ہے ابھی تھوڑی سی تجربہ کے لئے لائے ہیں ۔ آئندہ بہت سی لائیں گے اس وقت یہ تصدیق کرنے والے مثلاً اسی مٹی کو عالم بالا کی مٹی سمجھ کر امریکہ وغیرہ سے درخواست کر بیٹھیں گے کو تھوڑی سی ہمیں بھی عنایت کر دی جائے تاکہ ہم آنکھوں پر ملیں اس امید پر کہ اس کی برکت سے بینائی میں اضافہ ہوا اور چشمہ لگانے کی علت سے نجات پائیں اور سینے پر رکھیں اس توقع میں کہ اس کی برکت سے دل کی نورانیت بڑھ جائے ۔
امریکن یا اور کوئی چاند پر پہنچ جائے تو اس سے معجزہ شق القمر کا انکار کیسے لازم آئے گا۔ اس کی دلیل میں حضور والا نے جو ارشاد فرمایا کہ اسکے بعد یہ کہا جائے گا۔ تمہارے نبی نے چاند کے دو ٹکڑے تو کر دیے مگر اس میں ان کا تسلط اور قبضہ نہیں ہوا اور ہم تو پورے قابض اور مسلط ہو گئے۔ اگر صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ و تصرف میں کسی چیز کے ہونے کا مطلب حضور کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے کسی غیر کا خصوصا کفار کا یا کم از کم امریکن کا تسلط نہ ہو کسی غیر کا تسلط خصوصاً یا کم ازکم امریکنوں کا حضور شہنشاہ کونین سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تسلط کے منانی ہے۔ یعنی اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی چیز پر کفار یا امریکنوں کا قبضہ تسلط ہے۔ تو یہ اس کی دلیل ہے کہ اس پر حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا
قبضہ و تسلط انہیں ان کا تصرف دلیل ہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے قبضہ و تسلط و تصرف کے انتفا کی تو حضور معاف فرمائیں ۔
لازم آیا کہ اس وقت اس زمانہ میں سوائے ان چند ٹکڑیوں کے جن پر مسلمانوں کا قبضہ ہے۔ اکثر روئے زمین پر کفار ہی کا قبضہ ہے۔ پورا امریکہ پورا روس، پورا چین، پورا جاپان ، پورا ہندوستان پورا یورپ بلکہ ایشیار و افریقہ کا پورا حصہ بلکہ خود حرمین طیبین حجاز حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قبضہ و تصرف میں نہیں کہ ان سب پر کفار نصاری ، مشرکین ، ملحدین مرتدین کا قبضہ ہے بلکہ یہ لازم آیا کہ کبھی بھی پوری زمین پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا قبضہ و تسلط نہ رہا ۔ اس لئے کہ سوائے اندلس کے پورا یورپ مسلم روس مسلم چین مسلم جاپان مسلم آسٹریلیا کبھی بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں آیا، پھر ہم اہلسنت و جماعت کے اس عقیدہ کی کیا حقیقت رہ گئی۔
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دوجہاں کی نعمتیں ہیں انکے خالی ہاتھ میں
پھر بخاری شریف کی اس حدیث کا کیا عمل ہے
”اوتیت بمفاتیح خزائن الارض”
مجھے زمین کے تمام خزانوں کی کل کنجیاں دیدی گئیں
حضور والا بات بالکل واضح ہے کہ
حضور صلی اللہ تعلی علیہ وسلم کے قبضہ و تسلط میں تمام عالم ہے اور عالم کے کسی حصہ پر بھی کسی غیر مسلم کا قبضہ و تسلط ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ کے منافی نہیں ۔
اسی طرح چاند معجزہ شق القمر کے وقت بھی اور اس وقت بھی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ و تسلط میں تھا اور ہے بالفرض اگر امرین یا روسی چاند پر پہنچ بھی گئے ہوں بلکہ فرض کیا جائے کہ اس پر اپنی نو آبادی قائم کر کے اپنی حکومت بھی قائم کر لیں گے جب بھی رہے گا۔
اور اگر یہ فرمائیں کہ چونکہ چاند سے ایک معجزے کا اثبات ہوا ہے اسلئے اس پر غیروں کا قبضہ نہیں ہوسکتا ۔ تو گزارش یہ ہے کہ زمین سے بھی معجرے کا ظہور ہوا ہے ، اثنائے ہجرت میں حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو اس وقت ایمان نہیں لائے تھے اور انعام کی لالچ میں شہید کرنے بڑھے تھے۔ بروایت تین بار بروایت سات بار زمین میں دھنسایا اور نکالا پھر اس پر غیروں کا قبضہ کیوں ہے۔
خصوصاً خاص اس سر زمین پر جہاں اس کا صدور ہوا تھا ، رہ گئی چاند کی خاک آنکھ میں سرمہ لگانے کے لئے ، امریکنوں سے وہ مانگے انگنے کی بات تو سر کار کے سفاک مدینہ نہ ملے اپنا تو یہ عقیدہ ہے:
خم ہوگئی ہے پشت زمین طعن زمین سے
سن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا
چاند پر تو چند لمحے کے لئے انگشت مبارک کا اشارہ پہنچا تھا۔ اور مدینہ میں سرکار چودہ سو سال سے جلوہ فرما ہیں۔ خواہ حضور والا کو یقین ہو خواہ نہ ہو میرا اپنا تو عقیدہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کی خاک تو بہت بلند ہے۔ وہاں تو وہ در ہے وہ گھر ہے جس کی کرسی کرسی سے بھی اونچی ہے۔ خود حضور والا کے نعلین کی خاک چاند سے افضل ہے، پھر اگر تصدیق کرنے والے عقلا سے سرکار کی مراد یہ خادم ہے جیسا کہ بعض میلوں سے ظاہر ہے، تو حضور والا کو یہاں بھی کفش بردار کو سمجھنے میں تسامح ہوا ہے۔ میں نے کبھی بھی ان چاند پر پہنچنے والی تصدیق نہیں کی، تو میرے رسالے کا موضوع ان کی تصدیق ہے۔ میں نے صرف اس پہلو پر گفتگو کی ہے کہ آیا شرعا چاند پر پہنچنا ممکن ہے یا نہیں اگر کوئی ان پر تصدیق کرے تو اسکا حکم کیا ہے؛ اس پر توبہ و تجدید نکاح ہے۔
جیسا کہ بعض بزرگوں کا فتویٰ ہے ۔ یا وہ گمراہ ہے ۔ جیسا کہ صحیح المسلک کے ۔ وہ بعض جملوں سے مترشح ہوتا ہے یا تصدیق کے بعد بھی وہ صحیح العقیدہ سنی مسلمان رہتا ہے۔
رہ گئیں ان کی اسلام دشمنی اسے میں خوب جانتا ہوں اور نہ اس سے غافل ہوں مگر میرا یہ مسلک نہیں کہ کسی قوم کی عداوت میں اتنا غلو کیا جائے کہ حق بات کو بدل دی جائے
ارشاد باری ہے-
وَلَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-
اور تمھیں کسی قوم کی عداد ابھارے کہ انصاف نہ کر (سورہ مائدہ آیت۸)
(ماخذ اسلام اور چاند کا سفر، صفحہ ۱۳۷)
(تصنیف؛ حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ)
پتہ چلا کہ سائنس داں کے بتائے ہوئے باتوں میں پڑکر اپنے اعمال کو خراب نہ کریں بلکہ اپنے علمائے اکابرین کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار فرمائیں انشاء اللہ عزوجل دنیا بھی سنور جائےگی اور آخرت میں اسکا بہترین بدلا ضرور ملےگا؛؛ واللہ اعلم
کتبہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی
0 تبصرے