بسم الله الرحمن الرحیم
تحریک آزادی میں مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی کا کردار
تحریک جنگِ آزادی ہندوستانی اتہاس کی ایک اہم داستان ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ 15 اگست 1947ء کو ہمارا عزیز وطن ہندوستان انگریزوں کے ظالمانہ پنجے سے آزاد ہوا۔ اس وقت سے آج تک پورے ہندوستان میں جشن یوم آزادی بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے، سارے ملک کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے، مجاہدین تحریک جنگ آزادی کو یاد کیا جاتا ہے۔
جنگ آزادی ہند۱۸۵۷ء میں علماء اہل سنت اور مشائخ طریقت کا نہایت بنیادی کردار رہا ہے ۔بلکہ اگر یہ کہاجائے تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ شمالی ہند انگریزوں کے خلاف مسلم رائے عامہ ہموار کرنے اور پورے خطے میں انقلاب کی فضا برپا کرنے کا بنیادی کام انہیں کی قیادت و سربراہی میں ہوا ،ان مجاہدین میں علامہ فضل حق خیرآبادی (م۱۲۷۸ھ)
مفتی صدرالدین خان آزردہ دہلوی(م1285ھ)
مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی(م 1274ھ 1858ء)
مفتی عنایت احمد کاکوروی(م 1279ھ)
مولانا رحمت اللہ کیرانوی(م 1308ھ)
مولانا فیض احمد بدایونی،
مولانا ڈاکٹر وزیرخاں اکبرآبادی(م1289ھ1873ء)
حضرت علامہ مفتی کفایت علی کافی مرادآبادی(م 1274ھ1858ء)
مولاناوہاج الدین مرادآبادی(م1274ھ1858ء)
مولانا رضا علی خاں بریلوی(م1286ھ1869)
مولانا امام بخش صہبانی دہلوی (م1273ھ 1857ء)
مفتی مظہر کریم دریابادی، حکیم سعید اللہ قادری(م 1325ھ)
اور نواب مجو خان مرادآبادی وغیرہ کے انقلابی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
ان سب ممتاز ہستیوں کے درمیان مولانا سید کفایت علی کافیؔ، یہ ایک ایسے نام ہیں جنہوں نے مرادآباد سے انگریزی راج کا تختہ الٹنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔اس تحریر میں حضرت علامہ مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ الرحمہ کا تذکرہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
تحریک جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں حضرت علامہ مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی کا مجاہدانہ کردار کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے؛؛ حضرت علامہ مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی انقلاب ۱۸۵۷ء میں انگرویزوں کے خلاف سینہ سپر تھے اور مرادآباد میں چلنے والی تحریک حریت کے قائدین میں پیش پیش تھے۔ نواب مجد الدین عرف مجو خاں کی سرکردگی میں جب مرادآباد میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو آپ کو مرادآباد کا صدرالشریعہ بنایا گیا اور آپ شرعی احکام کے مطابق مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ مرادآباد میں مولانا کفایت علی کافی نے انگرویزوں کے خلاف فتوی جہاد جاری کیا۔ اور اس کی نقلیں دوسرے مقامات پر بھجوائیں اور کچھ جگہوں پر آپ خود تشریف لے گئے۔ آنولہ کی تحریک آزادی میں بھی آپ نے حصہ لیا۔ آنولہ سے آپ بریلی پہنچے اور نواب خاں بہادر خاں روہیلہ اور مولوی سرفراز علی سے مشورہ و تبادلہ خیال کیا پھر بریلی سے دہلی کے لیے جانے والی وہ فوج جو جنرل بخت خاں روہیلہ کی ماتحتی میں برسر پیکار تھی اس کے ساتھ آپ مرادآباد واپس آئے۔ انگرویز مرادآباد کے ہنگامہ سے ڈر کر میرٹھ اور نینی تال فرار ہو گئے۔
انگرویزوں نے بے دردی کے ساتھ نواب مجو خاں کو بے حد اذیت ناک طریقے پر شہید کر دیا اور پھر عیسائی تہذیب کاروں کا ننگا ناچ شروع ہوا جس کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اس وقت انگرویزوں نے غداروں کو ایک اور لالچ دے رکھا تھا کہ جو شخص کسی بھی مجاہد کو گرفتار کرائے گا اور پھانسی دلوائے گا اس کی جائیداد کا بڑا حصہ اس غدار کو دیا جائے گا اس لالچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی مجاہد ایسا نہیں بچا جس کو غداروں نے گرفتار کروا کر پھانسی نہ دلوادی ہو۔
جتنے بھی خیر خواہ صاحبان ہیں یہ انہیں غداروں کی پیداوار ہیں، لہذا مولانا کفایت علی کافی کی بھی مخبری ایک کمینہ صفت انسان فخرالدین کلال نے اس شرط پر کر دی۔کہ گرفتاری کے بعد انعام میں مولانا کفایت علی کافی کی تمام جائداد اس کو دے دی جائے ۳۰ اپریل کو مولانا کفایت علی کافی کی گرفتاری کے بعد فوری کاروائی مقدمہ شروع ہوا اور ۴ مئی ۱۸۵۸ء کو مولانا کفایت علی کافی کا مقدمہ ظالم و جابر انگریز مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہوا اور بہت جلد اس کا فیصلہ سنایا گیا۔ مقدمہ کی پوری کاروائی صرف دو دن میں پوری کر دی گئی ۴ مئی کو مقدمہ پیش ہوا اور 6 مئی کو حکم دیا گیا اور اسی وقت پھانسی لگا دی گئی۔
جس وقت مولانا کافی کو قتل گاہ کو لےجایا جا رہا تھا اس وقت آپ اپنی ایک نعت شریف پڑھتے ہوئے خراماں خراماں تشریف لے گئے؛؛
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دم کے چہچہے
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہوں
اس تنِ بے جان پر خالی کفن رہ جائے گا
سب فنا ہوجائیں گے کافی ولیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پہ سخن رہ جائے گا
آپکی تاریخِ شہادت:
آپ کی شہادت بروز جمعرات 22/ رمضان المبارک 1274ھ، مطابق 6/مئی 1858ء کو ہوئی۔
مدفن:
مولانا کافی شہید علیہ الرحمہ کو مراد آباد جیل کے سامنے مجمع عام کے روبرو پھانسی دی گئی اور وہیں کسی مقام پر رات کی تاریکی میں دفن کر دیا گیا۔ دفن کے سلسلے میں عوام کے درمیاں مختلف راویات گردش کرتی ہیں۔
یہ وہ مبارک مجاہدین وطن ہیں جنہوں نے اس وقت آزادی کی بنیاد ڈالی ،جس وقت ہندوستان غلامی زنجیروں میں قید تھا، انکی مقدس قربانیاں آزادی کی خشت اول ثابت ہوئیں، ان شہیدان وطن اور مجاہدین آزادی کی پاکیزہ نورانی روحوں کو سلام۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد عارف رضوی قادری گونڈوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
0 تبصرے