السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرلاتہ
ہندوؤں کو شہید کہنا کیا ہے؟ جنگ آزادی میں جو ہندو مارے گئے ہیں اگر کوئی انھیں شہید کہتا ہے تو اس پر شرعا کیا حکم ہوگا؟ "فتاوی شارحِ بخاری میں لکھا ہے کہ "ہندو کو شہید کہنا کفر ہے". 
سائل : عبداللہ مہاجری. ہند 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 الجواب: "شہید" اہلِ اسلام کی ایک خاص اصطلاح ہے. جس کا ایک مخصوص مفہوم ہے جسے ہر مسلمان جانتا ہے.
اسی خاص معنی و مفہوم میں کسی ہندو کو "شہید" کہنا بلاشبہہ کفر ہے.
دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو کسی ہندو یا کافر کو "شہیدِ اسلامی" یا "شہیدِ فقہی" کے معنے میں "شہید" کہنا کفر ہے.
فتاوی شارحِ بخاری میں اسی معنی کے اعتبار سے ہندو کو شہید کہنے کو کفر کہا گیا ہے.
مگر اہلِ علم جانتے ہیں کہ ہمارے ملکی عرف میں لفظ "شہید" وطن کے لیے جان دینے والوں کو بھی کہا جاتا ہے.
اور یہ عرفی معنی بالکل مشہور و معروف ہے. یہاں تک کہ جب وطن پر مرنے والوں کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے تو نہ بولنے والے کی مراد "شہیدِ فقہی" ہوتا ہے اور نہ ہی سننے والے کا تبادرِ ذہنی اس اسلامی معنے کی طرف ہوتا ہے. بلکہ اس کا اہلِ وطن کے نزدیک متعارف معنی ہی ہر کوئی سمجھتا ہے.
لفظِ "شہید" کا یہ مفہوم اوپر ذکر کیے گئے اسلامی مفہوم سے بالکل الگ ہے. اور جنگِ آزادی کے مقتولین یا وطن کی خاطر جان دینے والوں کو اِسی خاص معنے کے اعتبار سے "شہید" کَہ دیا جاتا ہے. اس لیے اسے کفر نہیں کہا جا سکتا.
حاصل یہ کہ جس معنی کے اعتبار سے کافر پر اس کا اطلاق کفر ہے وہ معنی یہاں متصور ہی نہیں ہوتا, اور جو معنی یہاں مراد ہوتا ہے اس معنے کے اعتبار سے کسی کو "شہید" کہنا کفر نہیں. 
واللہ تعالی أعلم.

  جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی