السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس سلسلے میں کہ استاذ کا مرتبہ بڑا ہے یا ماں باپ کا ۔
سائل : مشرف عالم مہاراشٹر
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک والوہاب
اسلام مىں استاد کو روحانى باپ کا درجہ حاصل ہے اور استاد کى تعظىم و تکریم اور مرتبہ والدین سے بڑھ کر ہے اس لیے کہ کہا جاتا ہے کہ " باپ پدر گِل " یعنی جسم کا باپ ہوتا ہے اور استاد " پدر دل " دل کا باپ ہوتا ہے لہذا استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے عمل پر مقدم رکھو
جیسا کہ امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ " اساتذہ و شیوخ علوم شرعیہ بلاشبہ آبائے معنوی و آبائے روح ہیں جن کی حرمت و عظمت آبائے جسم سے زائد ہے کہ وہ پدر آب و گل ہے اور یہ پدر جان و دل ، علامہ مناوی تیسیر جامع صغیر میں فرماتے ہیں کہ "
من علم الناس ذاك خیر اب ۔ ذا ابو الروح لا ابو النطف "
اھ یعنی استاد کا مرتبہ باپ سے زیادہ ہے کہ وہ روح کا باپ ہے ، نہ نطفہ کا " اھ ( التیسیر شرح جامع الصغیر تحت حدیث انما انا لکم بمنزلة الوالد الخ ج 1 ص 361 : مکتبة الامام الشافعی ریاض )
اور علامہ حسن شرنبلالی " غنیہ ذوی الارحام"حاشیہ درر و غرر میں فرماتے ہیں کہ "
الوالد ھو والد التربیة فرتبته فائقة رتبة والد التبنیة " اھ
یعنی اعلٰی درجہ کا باپ استاد مربی ہے اس کا مرتبہ پدر نسب کے مرتبہ سے زائد ہے " اھ ( غنیہ ذوی الاحکام حاشیۃ علی الدرر الحکام )
اور عین العلم شریف میں ہے کہ
" یبر الوالدین فالعقوق من الکبائر ، و یقدم حق المعلم علی حقهما فهو سبب حیاۃ الروح " اھ
یعنی ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرے کہ انہیں ناراض کرنا گناہ کبیرہ ہے اور استاد کے حق کو ماں باپ کے حق پر مقدم رکھے کہ وہ زندگی روح کا سبب ہے " اھ ( ۔عین العلم الباب الثامن فی الصحبة و المؤلفة ص 35 ۔ 333 : مطبع امرت پریس لاہور )
اور امام شعبہ میں فرماتے ہیں کہ
" ما کتبت عن احد حدیثا الا و کنت له عبدا ما حیی " اھ
یعنی میں نے جس کسی سے ایک حدیث بھی لکھی میں عمر بھر اس کا غلام ہوں " اھ
( المقاصد الحسنة تحت حدیث 1164 ص 421 : دار الکتب العلمیة بیروت بحوالہ فتاوی رضویہ ج 19 ص451 : رضا فاؤنڈیشن لاہور )
واللہ اعلم بالصواب
کریم اللہ رضوی
خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی موبائل نمبر 7666456313
0 تبصرے