السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ باطل فرقے کے پیچھے اہل سنت والجماعت کی نماز نہیں ہوتی ہے چاہے وہ مسجد حرام ہو یا مسجد نبوی تو ظالم دیوبندی کا اعتراض ہے کہ ہمارا رب اتنا کمزور ہے تو اللہ اپنے گھر میں اور مسجد نبوی میں جن کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے انہیں مصلیٰ امامت پر کیوں فائز کیا؟ برائے مہربانی علمائے کرام اس اعتراض کا تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں. 
سائل؛ محمد عامر حسین بریلی شریف 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون المک الوہاب 
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے) إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ" 
اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں مذکور ہے؛ إنَّ اللَّه يَفْعَل مَا يُرِيد" مِنْ إكْرَام مَنْ يُطِيعهُ وَإِهَانَة مَنْ يَعْصِيه." كَذَلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ " (آل عمران آیت 40) "اَللّٰهُ يَفْعَل مَا يَشَاء" لَا يُعْجِزهُ عَنْهُ شَيْ" (تفسیر آیت بالا) 
مذکورہ آیات و تفسیرات سے واضح ہوگیا کہ اللہ تبارک و تعالی جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور یہ بات کسی عاقل پر مخفی نہیں کہ کائنات کا ذرہ ذرہ بھی اسی کے حکم کا تابعدار ہے. اس تفسیر سے یہ واضح ہو گیا کہ زمین و آسمان میں کوئئ شئ اس کو عاجز نہیں کر سکتی ! 
چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: "وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا" تو مذکورہ اعتراض نصِ صریح کے مخالف ہے لہذا باطل محض ہے! 
رہا یہ کہ اہل بدعت کا امام ہونا؛ حدیث شریف میں ہے: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر لکھی ، اور اس کا عرش پانی پر تھا ۔‘‘ (رواہ مسلم و تاریخ بغداد (۲/ ۲۵۲) 
واضح ہوا کہ جب ہر چیز مقدر ہو چکی ہے تو اہلِ بدعت، وہابی کا امام ہونا بھی مقدر ہو چکا. اگر دیوبندی کے اس اعتراض کو بالفرض تسلیم کر لیا جائے تو کئی اعتراضات اللہ وحدہ لا شریک کی قدرت و مصلحت پر وارد ہوں گے 1 اعتراض کیا اللہ رب العزت اس بات پر قادر نہیں کہ زانی کو زنا سے روک دے ،کاذب کو اسکے کذبِ شنیع سے روک دے ،کافر کو اسکے کفر سے روک دے ، قاتل کو ناحق قتل سے روک دے وعلی ہذا القیاس.اب اگر کوئی زنا یا جھوٹ یا ناحق قتل کا مرتکب ہوا توکیا اس نے رب العزت کو عاجز کر دیا قطعًا نہیں! لقولہ تعالیٰ ان اللہ علی کل شیئ قدیر" 
رہا مذکورہ فاعلوں کو ان کے فعل سے نہ روکنا تو محض اس وجہ سے ہے کہ؛ "لَا تَبْدِيل لِكَلِمَاتِ اللَّه" ای لَا خُلْف لِمَوَاعِيدِهِ" تو جب سب کچھ لکھا جا چکا یعنی اہل بدعت کا امام ہونا وغیرہ تو یہ اسکو عاجز کرنا قطعاً نہیں بلکہ خود اس کے قول کے مطابق ہے کہ ایسا ہی مقدور ہے. 2:اعتراض اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کا اظہار فرماچکا ہے ارشاد ہے؛ "وتلک الایام نداولھا بین الناس" (سورۃ نمبر 03 آیت نمبر 140) 
یہ دن ہیں جسے ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں..یعنی. کبھی حق کا غلبہ اور کبھی بظاہر باطل کا، کبھی منصف کی حکومت کبھی ظالم کی. کبھی حق کی فتح، کبھی بظاہر باطل کی. (جیسے جنگِ بدر و احد میں) معترض اللہ کی قدرت و مصلحت کو جگہ اور وقت سے قید کرکے شانِ الٰہی کا انکار اور اپنے کافر ہونے کا اظہار کر رہا ہے. اللہ تعالیٰ ہر جگہ، ہر وقت قادر ہے کبھی اور کہیں عاجز اور کمزور نہیں جگہ صرف مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا، ساراعالم اس کے قبضۂ قدرت میں ہے. تو معترض کے مطابق معاذاللہ اللہ اتنا کمزور ہے کہ صرف مسجد حرام و مسجد نبوی کا مصلیٰ بچا لیا مگر ساری دنیا پر کافروں، یہودیوں، عیسائیوں کو منصبِ حکومت پر فائز کر دیا؟ بریں عقل و دانش بباید گریست وقت اس وقت تو مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی حکومت و امامت پر کافر آلِ سعود، اولادِ یہود، وہابی اہلِ خبیث، قابض ہیں. ایک وقت تھا جب سلطنتِ عثمانیہ ترکی کے سنیوں کا غلبہ تھا. اور ایک وقت وہ بھی تھا جب کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت کی پوجا ہو رہی تھی. تو کیا معاذاللہ اللہ تعالیٰ اس وقت کمزور تھا؟ 
اب نہیں ہے؟ لاحَولَ وَلا قُوَّۃَ اِلّا بِاللہ تو خبیث دیوکے بندے کا اعتراض بھی نہایت خبیث و باطل ہے. 
واللہ اعلم بقدرتہ و حکمتہ 
کتبہ؛ محمد نعمان اختر 
ضلع کشن گنج بہار