السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں،معراج مصطفی سے پہلے امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پہ کون سی نمازیں فرض تھی ،آپ حضرات دلائل کےساتھ وضاحت فرمادیں،بڑی نوازش ہوگی؛
المستفتی :منظور عالم،یوپی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبركاتہ
الجواب بعون الملک والوہاب
جیسا کہ مؤرخ و مصنف حضرت احمد بن محمد المعروف امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى ۹۲۳ ھ) اپنی کتاب مواہب لدنیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
حضرت مقاتل بن سلیمان بلخی مفسر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ!
شروع شروع میں دو رکعتیں صبح اور دو رکعتیں شام کے وقت فرض تھیں-
قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے،
"وَسَبّحْ بِحَمْدِ رَبّکَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارْ "
ترجمہ؛ اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح شام اور صبح کے وقت بیان کیجئے-
فتح الباری میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ واقعہ معراج سے پہلے یقیناً نماز پڑھتے تھے اسی طرح صحابہ کرام بھی نماز پڑھتے تھے لیکن اس میں اختلاف ہے کہ کیا پانچ نمازوں سے پہلے کوئی نماز فرض تھی یا نہیں؟ کہا گیا ہے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے نماز فرض تھی ، اس کی دلیل یہ ہے
"وَسَبّحْ بِحَمْدِ رَبّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الْشَّمْشِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا"
ترجمہ؛ اور سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کریں-
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
سب سے پہلے ڈرانا اور توحید کی طرف بلانا واجب ہوا
پھر اللہ تعالی نے رات کا قیام فرض کیا جس طرح سورہ مزمل کے شروع میں مذکور ہے،
پھر اس حکم کو منسوخ کر دیا گیا جس طرح اسی سورت کے آخر میں ہے اس کے بعد مکہ مکرمہ سے آپ ﷺ کو معراج کرایا اور اس رات پانچ نمازیں فرض کر کےاسے منسوخ کیا اور جو کچھ اس روایت میں ذکر کیا گیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو وضو سکھایا اور اس کا حکم دیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وضو کی فرضیت معراج سے پہلے ہوئی -
(شرح مسلم للقاضی عیاض ج ٢ ص ١١)
(نوٹ) حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سکھانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ ﷺ کے استاذ ہو گئے، بلکہ وہ تو ایک واسطہ تھے سکھانے والا اور احکام بھیجنے والا تو اللہ تعالی ہے-
(مواہب لدنیہ جلد ١ صفحہ ۱۳۷)
اعلیٰ حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان (المتوفى ۱۳٤٠ھ) فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ!
معراج مبارک سے پہلے حضور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام نمازیں پڑھتے-
نماز شب کی فرضیت تو خود سورہ مزمل شریف سے ثابت اور اس کے سوا اور اوقات میں بھی نماز پڑھنا وارد عام ازینکہ (خواہ جو بھی ہو) فرض ہو یا نفل حدیث شریف ہے۔
"کَانَ الْمُسْلِمُونَ قبل ان تفرض الصلوات الخمس یصلون الضحیٰ العصر فکان النبی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم واصحابہ اذا صلوا اٰخر النھار تفرقوا فی الشعاب فصلوھا فرادی-"
ترجمہ؛ فرضیت پنجگانہ سے پہلے مسلمان چاشت اور عصر پڑھا کرتے تھے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام جب آخر روز کی نماز پڑھتے گھاٹیوں میں متفرق ہو کر تنہا پڑھتے-
رواہ ابن سعد وغیرہ عن عزیزۃ بنت ابی تجراۃ رضی الله تعالٰی عنھا ذکرہ فی ترجمتھا من الاصابة -
ترجمہ؛ اس کو ابن سعد وغیرہ نے عزیزۃ بنت ابی تجراۃ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے
یہ بات اصابہ میں عزیزہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں مذکور ہے-احادیث اس باب میں بکثرت ہیں اور اس کی جمع و تلفیق کی حاجت نہیں بلکہ نماز شروع روز شریفہ سے مقرر و مشروع ہے حضور ﷺ پر پہلی بار جس وقت وحی اتری نبوت کریمہ ظاہر ہوئی اسی وقت حضور ﷺ نے بہ تعلیم حضرت جبرئیل علیہ السلام نماز پڑھی اور اسی دن بہ تعلیم اقدس ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پڑھی، دوسرے دن حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے ساتھ پڑھی کہ ابھی سورہ مزمل نازل بھی نہیں ہوئی تھی؛
(فتاویٰ رضویہ جدید ج ۵ ص ۸۲) مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
لہذا ان ساری عبارات سے معلوم یہ ہوا کہ قبل معراج حضور ﷺ اور صحابہ کرام دو وقت کی نمازیں ایک صبح ایک شام دو دو رکعت چاشت اور عصر پڑھا کرتے تھے-
واللّٰہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ؛ محمد شبیر احمد
سمستی پور بہار
0 تبصرے