السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ 
سوال: کیا حکم ہے اس بارے میں کہ سجدۂ تعظیمی کی شرعی حیثیت کیاہے؟ شرعاًجائز ہے یانہیں؟ قرآن و سنّت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں برائے کرم. 
سائلہ؛ فردوس پروین کلکتہ 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک والوہاب 
سجدہ کی دوقسمیں ہیں:
(1)سجدۂ عبادت
(2)سجدۂ تعظیمی سجدۂ عبادت اللہ کاحق ہے ،
جوغیرخداکےلیےکسی بھی شریعت میں لمحہ بھرکے لیے بھی جائزنہیں ہوا ۔ اگر غیر خدا کو سجدہ عبادت کسی نے کیا ، تو واضح طور پر کافر ہوجائے گا ، جبکہ سجدۂ تعظیمی(یعنی اللہ کی طرف سےکسی کوملنے والی عظمت کے اظہارکے لیےسجدہ کرنا) پچھلی شریعتوں میں جائزتھا ۔ 
جیسے حضرت آدم علیہ السلام کوفرشتوں نے اورحضرت یوسف علیہ السلام کو آپ کے بھائیوں اورآپ کےوالدین نے سجدہ کیا، لیکن  ہماری شریعت میں  یہ سجدۂ تعظیمی منسوخ ہوچکاہے؛ 
لہذا شریعت محمدیہ میں تا قیامت غیرخدا کے لیے سجدۂ تعظیمی سخت ناجائزو حرام ہےاور تعظیماً سجدہ کرنے والاسخت گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہوگا ، ہاں کافر نہ ہوگا ، کسی قسم کا حکم کفر اس پر عائد نہ ہوگا
تفسیرمظہری وتفسیردرمنثور وغیرہ میں ہے: ”أن رجلا قال:يا رسول الله نسلم عليك كما يسلم بعضنا على بعض أفلا نسجد لك قال: لا ولكن أكرموا نبيكم واعرفوا الحق لأهله فانه لا ينبغي أن يسجد لأحد من دون الله“ یعنی ایک صحابی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! ہم حضور کو بھی ایسا ہی سلام کرتے ہیں ، جیسا کہ آپس میں۔ کیا ہم حضور کو سجدہ نہ کریں؟ فرمایا: نہیں ، بلکہ اپنے نبی کی تعظیم کرو اور سجدہ خاص حق خدا کا ہے۔اسے اسی کے لئے رکھو اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں۔ (الدرالمنثور،ج02،ص250،دارالفکر،بیروت) 
مشکوٰۃالمصابیح میں بحوالہ ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ”لو كنت آمر أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها“ یعنی اگرمیں کسی کوکسی(مخلوق)کے لئے سجدہ کرنے کاحکم دیتاتوعورت کوضرورحکم دیتاکہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے۔ (مشکاۃالمصابیح،کتاب النکاح،ج02،ص972،المکتب الاسلامی،بیروت)
اس حدیث کے تحت حضرت ملاعلی قاری علیہ رحمۃ الباری تحریرفرماتے ہیں: ”إن السجدة لا تحل لغير الله“ یعنی غیراللہ کے لئے سجدہ حلال نہیں ہے؛ (مرقاۃالمفاتیح،کتابالنکاح،ج06،ص369،مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی عالمگیری میں ہے: ”من سجد للسلطان على وجه التحية أو قبل الأرض بين يديه لا يكفر ولكن يأثم لارتكابه الكبيرة هو المختار۔قال الفقيه أبو جعفر-رحمه الله تعالى - وإن سجد للسلطان بنية العبادة فقد كفر“ یعنی جس نے کسی حاکم کو بطور تعظیم سجدہ کیایا اس کےسامنے زمین چومی وہ کافر نہ ہوگا ہاں گنہگار ضرور ہے کیونکہ اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔یہی مختارہے۔امام ابوجعفرعلیہ الرحمۃنے فرمایاکہ اگرحاکم کو سجدہ بطور عبادت کیا تو کافر ہوگا۔ (ملتقطااز الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراھیۃ،ج05،ص369،مطبوعہ کوئٹہ) 
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”سجدہ تحیت یعنی ملاقات کے وقت بطورِ اکرام کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر بقصد عبادت ہو تو سجدہ کرنے والا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔“ (بہارِشریعت،ج03،ص473،مکتبۃالمدینہ،کراچی) 
تفصیل کے لیےمجدداعظم امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن کےرسالہ  "الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ" کامطالعہ کیجیے ۔
 اس میں آپ علیہ الرحمۃ نے ایک آیت کریمہ،چالیس احادیث اورڈیڑھ سوفقہائے کرام کے ارشادات سےسجدۂ تعظیمی کی حرمت کو بیان فرمایا ہے۔ 
واللہ تعالی اعلم بالصواب 
جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری