السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین اس بارے میں کہ:حنفیوں کو نمازِ عصر کس وقت پڑھنی چاہیے اور یہاں اکثر امام‘ شافعی ہیں‘ کچھ مالکی اور حنبلی بھی ہیں‘ کیا ان کی جماعت کے ساتھ اسی وقتِ عصر پڑھ سکتے ہیں۔ مستفتی:محمد یوسف ،دوبئی 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب: 
عصر کا وقت حضرت سیّدنا امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک جب تک سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل نہ ہو جائے نہیں آتا اور صاحبین کے نزدیک ایک ہی مثل کے بعد آ جاتا ہے‘ اگرچہ بعض کتب ِفتاویٰ وغیرہ تصانیف ِبعض متأخرین مثل برہان طرابلسی و فیض کرکی و درمختار میں قولِ صاحبین کو مرجح بتایا گیا مگر قولِ امام ہی احوط واوضح اور از روے دلیل راجح ہے‘ اکابر ائمہ ترجیح و افتاء بلکہ جمہور پیشوایان مذہب نے اسی کی تصحیح کی‘ اگر آپ کے یہاں اس وقت عصر کی نماز ہوئی ہے تو اس کی صحت میں کسی کے نزدیک کلام نہیں اور اگر اس وقت سے پہلے مثل ثانی میں ہوئی ہے تو عند التحقیق اصلاً قولِ امام پر نہیں ہوئی اور اگرتنزل کیا جائے تو بھی نمازمکروہ بہ کراہت ِشدیدہ ہوئی۔ اگر دو مثل سواسایہ اصلی ہونے تک جماعت ِثانیہ ملنے کی امید ہو‘ تو اس پہلی جماعت میں ہرگز شریک نہ ہواور اگرجانے کہ پھر میرے ساتھ کوئی نہ ملے گا تو بتقلید صاحبین شریک ہو جائے اور بعد میں عصر کے وقت ِمذکور میں اپنی تنہا پڑھے۔ 
ھٰذا ملخص مافی الفتاویٰ الرضویہ سیّدنا امام احمد رضا الفاضل بریلوی قدس سرہ [الفتاویٰ الرضویۃ‘ج۲‘کتاب الصلوٰۃ‘باب الاوقات‘ص۲۱۰‘رضا اکیڈمی] 
واللہ تعالٰی اعلم 

جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری