السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید پڑوسی کو تنگ کرتا ہے اور پریشان کرتے رہتا ہے، اس کے بارے میں آپ حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں عرض کریں۔ نوازش ہوگی-"
السائل؛ ذاکر حسین
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک والوہاب
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ والدین، رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، اور پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے، ہمیں پڑوسیوں سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے، اور انہیں کسی بھی طرح سے تکلیف دینا نہیں چاہیے ورنہ پھر مستحق نار ہے،،
جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ؛
("واعبدوا اللہ ولا تشرکوا به شیٔا و بالوالدین احسانا و بذالقربی والیتمی والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم, ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا")
ترجمہ؛اور اللہ کی بندگی کرو، اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ، اور ماں، باپ سے بھلائی کرو، اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں، پاس کے ہمسائے سے اور کروٹ کے ساتھی اور راہگیر اور اپنی باندی غلام سے،، بیشک اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں آتا، کوئی اترانے والا، بڑائی مارنے والا،،
("کنزالایمان, پارہ پانچ، رکوع تین، سورۂ نساء: ٣٦")
اور حدیث شریف میں ہے کہ؛ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو جہاں ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ-
جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے مجھے تکلیف دی، اس نے خدا کو تکلیف دی، اور جس نے اپنے پڑوسی سے لڑائی کی، اس نے مجھسے لڑائی کی، اور جس نے مجھ سے لڑائی کی، اس نے اللہ عزوجل سے لڑائی کی،،
("الترغیب والترہیب جلد دوم صفحه 292")
اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ؛ حضرت ابوھریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو، وہ اپنے مہمانوں کی تعظیم کرے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسیوں کو نہ ستائے،،
("بخاری شریف جلد دوم صفحه 889")
اور مشکوۃ شریف کی ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ--
حضرت انس رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا'" لا یدخل الجنۃ من لا یأمن جارہٗ بوآئقه'" وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو،,,
("مشکوۃ شریف صفحه 422")
[ماخوذ؛ برکات شریعت حصه اول صفحه 472 پڑوسیوں کے حقوق"]
لہذا؛ مذکورہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہوگیا کہ پڑوسیوں کو تکلیف دینا، بہت بڑا جرم و گناہ ہے، زید کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو ستانے سے باز آجائے، اور ان سے معافی مانگے، اور آئندہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے، اور رب قدیر کی بارگاہ میں بھی توبہ و استغفار کرے، ورنہ پڑوسیوں کو ستانے کا وبال اس پر ہوگا-"
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد عمران رضس ساغر صاحب
کشن گنج بہار
منجانب؛ محفل غلامان مصطفٰےﷺ گروپ
0 تبصرے