السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسٔلہ ذیل کے بارے میں اگر کوئی ناجائز کمائی سے میلاد شریف کا پروگرام رکھے اور لوگوں کے کھانے کا انتظام بھی ہو لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ ناجائز کمائی کا کھانا ہے پھر بھی کھائے تو کھلانے والے کے بارے میں کیا حکم ہے اور کھانے والے کے بارے میں کیا حکم ہے مدلل جواب عنایت فرمائیں 
 سائل؛ محمد دراز الحق 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک والوہاب 
بعینہٖ جس چیز کی حرمت کا یقین نہ ہو اس کا کھانا جائز ہے اور کھانے کھلانے والے پر کوئی سزا نہیں ہاں اگر یقیناً وہ کھانا جو اہل خانہ نے بنوایا ہے حرام کمائی کے پیسے سے ہی بنوایا ہے تو اب اس کا کھانا جائز نہیں کھانے والے اور کھلانے والے سب کے سب گناہ گار ان سب پر توبہ لازم ہے، 
 جیسا کہ امام اہلسنت فقیہ باکمال امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں: کھانا کھانا جائز ہے جبکہ وہ چیز جو اسے دے اس کا بعینہٖ مال حرام ہونا نہ معلوم ہو۔ (ملخصا) کما فی الھندیۃ عن الذخیرۃ عن محمد رحمہ ﷲ تعالٰی؛ 
جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ذخیرہ کے حوالہ سے امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے، اور خبث ملك فقیر کو تصدق میں لینے سے مانع نہیں، فی الھندیۃ عن الحاوی عن الامام ابی بکر قیل لہ ان فقیرا یأخذ جائزۃ السلطان مع علمہ ان السلطان یأخذھا غصبا ایحل لہ قال ان خلط ذٰلك بدراھم اخری فانہ لاباس بہ الی اٰخرہ۔ چنانچہ عالمگیری میں الحاوی اس نے امام ابوبکر سے نقل کیاہے کہ ان سے کہا گیا کہ فقیر بادشاہ سے انعام لیتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ بادشاہ نے وہ انعام یا مال بطورِ غصب لے رکھاہے تو کیا یہ اس کے لئے حلال ہوگا؟ ارشاد فرمایا کہ اگر وہ دراہم، انعام دوسرے دراہم میں ملاڈالے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں، 
{فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد (۲۳) ص (۵۴۴) ناشر دعوت اسلامی} 
حدیث میں ہے رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان ﷲ طیّب لایقبل الاَّ الطیب، بیشک اللہ عزوجل پاك ہے پاک ہی چیز کو قبول فرماتاہے۔ (السنن الکبرٰی کتاب صلاۃ الاستسقاء دارالمعرفۃ بیروت (۳) ص (۳۴۶) واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم و علمہ أتم و أحكم 

کتبہ؛ محمد راشد مکی 
گرام ملک پور ضلع کٹیہار بہار ہند