السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں ہمارے علماء مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا کیسا ہے اور جمعہ خطبہ کے وقت نماز یا بات کرنا. یا ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے برائے مہربانی یہ دونوں سوال کے جواب عنایت فرمائیں:
السائل؛ محمد سرتاج عالم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
مسجد میں دنیا کی باتیں کرنے کے بارے میں اعلحضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں ۔کہ مسجد میں دنیا کی مباح باتیں کرنے کو بیٹھنا نیکیوں کو کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔
فتح الباری میں ہے؛
الکلام المباح فیہ مکروہ یاکل الحسنات ۔ اھ اشباء میں ہے :
انہ یاکل الحسنات کماتالکل النار الحطب اھ
امام ابو عبد اللہ نسفی نے مدارک شریف میں حدیث نفل کی کہ
یہاں پر عربی عبارت رہے ۔الحدیث فی المسجد یاکل الحسنات کماکل البھیمۃ الحشیش اھ ۔
مسجد میں دنیا کی بات نیکیوں کو اس طرح کھاتی ہے جیسے چوپایہ گھاس کو ۔
غمزالعیون میں خزاۃ النفقہ سے ہے
من تکلم فی المساجد بکلام الدنیااحبط اللہ عنہ عمل اربعین سنۃ اھ؛
مسجد میں دنیا کی بات کرے اللہ تعالی اس کے چالیس برس کے عمل اکارت فرمادے
اقول ومثلہ لایقال بالرای۔ رسوال اللہ ﷺ فرماتے ہیں ۔
سیکون فی اخر الزمان یکون حدیثھم فی مساجد ھم لیس اللہ فیھم حاجۃ
۔آخر زمانے میں کچھ لوگ ہونگے کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کریں گے اللہ تعالی کو ان لوگوں سے کچھ کام نہیں ۔
رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے
۔کلام الدنیا اذا کان مباحا صدقا فی المساجد بلا ضرورۃ داعیۃ الی ذلک کالمعتکف فی حاجۃ اللازمۃ مکروہ کراھۃ تحریم ثم ذکر الحدیث وقال فی شرحہ لیس اللہ تعالی فیھم حاجۃ ای لایرید بھم خیرا وانماھم اھل الخیبۃ والحرمان والاھانۃ والخسران ۔ اھ
یعنی دنیا کی جب کہ فی نفسہ مباح اور سچی ہو مسجد میں بلا ضرورت کرنی حرام ہے ضرورت ایسی جیسے معتکف اپنے حوائج ضروریہ کےلئے بات کرے پھر حدیث مذکور ذکر کرکے فرمایا معنی حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ نہ کرےگا اوروہ نامرادومحروم وزیاں کاراور اہانت وذلت کے سزا وار ہیں۔
اسی میں ہے ۔
وروی ان مسجد امن المساجد ارتفع الی السماء شاکیا من اھلہ یتکلمون فیہ بکلام الدنیا فاستقبلہ المئٰکۃ وقالوا بعثنا بھلاکھم"
یعنی مروی ہےکہ ایک مسجد اپنے رب کے حضور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ سے دنیا کی باتیں کرتے ہیں ۔ ملائکہ اسے آتے ملے اور بولے ہم ان کے ہلاک کرنے کےلئے بھیجے گئے ہیں ۔
اسی میں ہے ۔
ورویان الملا ئکۃ یشکون الی اللہ تعالی من نتن فم المغتابین والقائلین فی المساجد بکلام الدنیا ۔ اھ
یعنی روایت کیاگیا کہ جو لوگ غیبت کرتے ہیں (جوسخت حران اور زنا سے بھی اشدہے) اور جو لوگ مسجد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے وہ گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فرشتے اللہ تعالی کے حضور ان کی شکایت کرتے ہیں ۔ جب مباح وجائز بات بلا ضرورت شرعیہ کرنے کو مسجد بیٹھنے پر یہ آفتیں ہیں تو حرام وناجائز کام کرنے کا کیا حال ہوگا،
(فتاوی رضویہ جلد ششم صفحہ ۴۰۳)
(فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۳۱۵تا۳۱۶ مسجد کا بیان)
نماز پڑھنے کی حالت میں ادھر ادھر منہ پھیرکر دیکھنامکروہ تحریمی ہے ، کل چہرہ پھر گیا ہو یا بعض اور اگر منہ نہ پھیرے صرف کنکھیوں سے ادھر ادھر بلاحاجت دیکھے تو مکروہ تنزیہی ہے اور نادراکسی غرض صحیح سے ہو تو اصلا حرج نہیں ۔
(ایساہی بہارشریعت حصہ سوم صفحہ ۱۶۶میں ہے ۔اور فتاوی علمگیری جلد اول صفحہ ۱۰۶ پر ہے)
ویکرہ ان یلتفت یمنۃ او یسرۃ بان یحول بعض وجھہ عن القبلۃ فاماان ینظر بمؤق عینہ والا یحول وجھہ فلا باس بہ کذافی فتاوی قاضی خان ،اھ ملخصا؛
علامہ حصفکی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں ۔
والا لتفات بوجھہ کلہ اوبعضہ للنھی ببصرہ یکرہ تنزیھاوبصدرہ تفسدکمامر ۔
اھ( الدرالمختار)
اور عبارت مذکورہ کے تحت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں ۔
(قولہ للنھی) ھو مارواہ الترمذی وصححہ عن انس عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایاک والالتفات فی الصلاۃ فان الالتفات فی الصلاۃ ھکذا فان کان لابد ففی التطوع لافی الفریضۃ وروی البخاری انہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال ھو اختلاس یختلسہ الشیطان
من الصلاۃ العبد وقیدہ فی الغایۃ بان یکرہ بغیر عذر وینبغی ان تکون تحریمیۃ کما ھو ظاھر الا حادیث بحر ۔ اھ
( الدرالمختار جلد اول صفحہ ۴۷۵)
(فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ ۱۸)
رہی بات خطبہ کے وقت نماز پڑھنا تو جب امام خطبہ کےلئے کھڑا ہو تو اس وقت سے لیکر ختم نماز تک نماز واذکار ہر قسم کا کلام منع ہے
واللّٰہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد مشاہد رضا قادری گونڈوی
0 تبصرے