السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتیان کرام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ کیا ٹرین میں نماز ادا ہوجائے گی
حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل، محمد قاسم رضوی
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
ٹھہری ہوئی ٹرین میں ہر نماز پڑھنا جائز ہے مگر چلتی ٹرین میں فرض و وتر اور صبح کی سنتوں کے علاوہ سب نمازیں جائز ہیں، اگر وقت ختم ہوتا ہو اور ٹرین نہ رکی ہو تو چلتی ہی میں پڑھ لے پھر جب رکے تو پھیر لے،
حضور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ؛ ٹھہری ہوئی ریل میں سب نمازیں جائز ہیں اور چلتی ہوئی میں سنّتِ صبح کے سوا سب سنّت ونفل جائز ہیں مگر فرض و وتر یا صبح کی سنتیں نہیں ہوسکتیں اہتمام کرے کہ ٹھہری میں پڑھے اور دیکھے کہ وقت جاتا ہے پڑھ لے اور جب ٹھہرے پھر پھیرے۔ (جلد پنجم صفحہ ١١٤، رضا فاونڈیشن لاہور)
اور حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ چلتی ریل گاڑی پر بھی فرض و واجب وسنّتِ فجر نہیں ہوسکتی، اور اس کو جہاز اور کشتی کے حکم میں تصور کرنا غلطی ہے کہ کشتی اگر ٹھہرائی بھی جائے جب بھی زمین پر نہ ٹھہرے گی اور ریل گاڑی ایسی نہیں اور کشتی پر بھی اسی وقت نماز جائز ہے جب وہ بیچ دریا میں ہو کنارہ پر ہو اور خشکی پر آسکتا ہو تو اس پر بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا جب اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرے اُس وقت یہ نمازیں پڑھے اوراگر دیکھے کہ وقت جاتا ہے تو جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لے پھر جب موقع ملے اعادہ کرے کہ جہاں مِن جہۃ العباد (یعنی بندوں کی طرف سے) کوئی شرط یا رکن مفقود ہو(یعنی نہ پایا گیا ہو) اُس کا یہی حکم ہے۔
(بہارِ شریعت جلد اول حصہ چہارم صفحہ ٦٧٣)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد مدثر جاوید رضوی
مقام۔ دھانگڑھا، بہادر گنج
ضلع۔ کشن گنج، بہار
0 تبصرے