السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
آپ تمامی حضرات خیریت سے ہونگے؟ میرا ایک سوال ہے کہ کیا چوک پر فاتحہ کرنا حرام ہے؟ 
کیونکہ مسجد میں جو امام صاحب ہیں ان کو گاؤں والے چوک پر فاتحہ کرنے کہتے ہیں، اگر امام صاحب منع کرتے ہیں تو گاؤں والے امام صاحب کو برابھلا کہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ آپ کو فاتحہ کرنا پڑیگا توایسی صورت میں امام صاحب کیا کرینگے جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی 
سائل محمد تصدق حسین نیپالی مہتنیا نیپال 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
 الجواب بعون الملک والوہاب 
سب سے پہلی بات تو یہ جان لیں کہ چوک پر فاتحہ پڑھنا حرام نہیں، بلکہ چوک پر تعزیہ کے سامنے فاتحہ پڑھنا جائز نہیں، جیسا کہ حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ، چوک پر یا تعزیہ کے سامنے شیرنی وغیرہ رکھ کر فاتحہ پڑھنا جائز نہیں -
 (فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۴۸۵) مطبوعہ (اکبر بک سیلرز اردو بازار لاہور) 
 اور فتاوی فقیہ ملت میں ہے کہ جو امام جان بوجھ کر تعزیہ کے سامنے چوک پر کھانا رکھ کر فاتحہ کرے، اور ایک امر ناجائز میں جاہلوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہے اورسمجھانے پربھی نہ مانے، تو ایسا امام سخت گنہگار مستحق عذاب نار ہے، اس کی اقتدامیں، نماز مکروہ تحریمی یعنی واجب الاعادہ ہے ، اسے چاہئے کی علانیہ توبہ و استغفار کرے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سےعبرت حاصل کریں : جیسا کی حدیث شریف میں ہے ”توبۃ السر بالسر والعلانیة بالعلانیة” یعنی نہاں گناہ کی توبہ نہاں اورعیاں گناہ کی توبہ عیاں طور پر ضروری ہے " (فتاوی فقیہ ملت جلداول صفحہ ۵۳)
 اب صورت مذکورہ میں امام صاحب کو چاہیے کہ دلیل شرعی کے ساتھ ساتھ احکام شرعیہ گاؤں والوں کو بتائیں، اور حتیٰ الامکان کوشش کریں کہ عوام انکی بات مان کر عامل ہو جائیں، لیکن اگر وہ ایسا نہ کرکے ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو انہیں انکے حال پر چھوڑ دیں اور ایسی جگہ امامت کرنے سے منع کردیں، روزی کا مالک اللہ ہے، اور یہ ظاہر ہے کسی بھی جائز اور نیک کام میں بندہ جب ارادہ مضبوط کر لیتاہے تو اسباب اللہ تعالی خود بخود مہیَّا کردیتاہے، 
واللہ اعلم بالصواب 
کتبہ؛محمد عارف رضوی قادری گونڈوی