السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ اس انداز میں بیان کرنا کہ لوگ غم میں ڈوب جائیں اور لوگوں کو رونا آجائے کیسا ہے؟
 قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں 
سائل : فرید احمد امبیڈکرنگر یوپی 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ہدایۃ الحق والصواب
 واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے اور یہ اہل بیت سے محبت کی علامت ہے۔ مگر شریعت محمدی ہمیں صبر کا درس دیتی ہے 
لہذا اس غم کا اظہار مرثیہ وماتم اور چیخیں مار کر رونے کی صورت وغیرہ میں نہیں ہونا چاہیے۔ جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت سے ناقص اور جس کی محبت اہل بیت سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے۔
   اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں؛ کون سا سنی ہوگا جسے واقِعۂ ہائلۂ کربلا (یعنی کربلا کے خوف ناک قصّے) کاغم نہیں یا اُس کی یاد سے اس کا دل محزون (یعنی رنجیدہ) اور آنکھ پُرنم (یعنی اشک بار) نہیں، ہاں مصائب (یعنی مصیبتوں)میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے، جزع فزع (یعنی رونے پیٹنے)کو شریعت منع فرماتی ہے، اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اُسے جھوٹا اظہارِغم رِیا ہے اور قصداً غم آوری وغم پروری (یعنی جان بوجھ کر غم کی کیفیت پیدا کرنا اور غم پالے رہنا) خلاف رِضاہے جسے اس کاغم نہ ہو اسے بے غم نہ رہناچاہئے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہئے کہ اس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اس کاایمان ناقص ہے 
 اور اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا کہ میلاد شریف میں شہادت کا بیان اور نوحہ اشعاروں کے پڑھتے ہی میلاد خواں خود روتے ہیں اور دوسروں کو بھی رلاتے ہیں مثال کی زینب کلثوم صغریٰ وغیرہ وغیرہ اس طرح سے پڑھتی تھیں اور روتی تھیں یعنی اس طرح پڑھنا جائز ہے یا نہیں؛ 
تو اس جواب میں امام اہلسنت امام احمد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ؛ نوحہ ماتم حرام ہے، بیان شہادت حسین ناجائز طور پر جاہلوں میں رائج ہے خود ہی ممنوع اور مجلس میلاد مبارک میں کہ مجلس سرور عالم کے ساتھ اسکا ملانا اور حماقت 
(بحوالہ؛ فتاویٰ رضویہ؛ جلد۲۴؛ ص ۴۸۹/۴۸۸) رضا فاؤنڈیشن لاہور)
 لہذا ذکر امام حسین رضی اللہ عنہ سن کر دل میں غم رکھے زور سے چیخیں مار کر رونا چلنا منع ہے 
واللہ اعلم باالصواب 
  کتبہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی