السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
مفتیان کرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کہ گورمنٹی زمین پر قبضہ کرنا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟ 
سائل محمد شارق قادری دموہ (ایم پی) 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب 
وہ زمین جس کا کوئی شخص مالك نہیں ہوتا ہے اور والیان ملك ( گورنمنٹ ) اس میں بطور خودتصرف کرتی ہے جسے چاہتی اسے الاٹ کر دیتی ہے جو چاہتی ہے بنواتی ہے اسے عرف میں کہیں بنجر تو کہیں گرام سماج اور کہیں نزول کی زمین کہا جاتا ہے، ایسی ملك کی زمین یا غیر مملوکہ زمین ﷲ عزوجل کی ملك ہوتی ہے، بیت المال کی کہلاتی ہے، گورنمنٹ اس کی مالك نہیں ہوتی،
 جیسا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں؛ 
  ”عادی الارض للہ و لرسولہ”  خالی (یعنی غیر مملوکہ) زمین ﷲ تعالٰی اور رسول صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ملك ہوتی ہے۔ 
 (فتاوی رضویہ، جلد،١٦ صفحہ، ٤٦٦ رضا فاٶنڈیشن ) 
 (ایسا ہی فتاوی علیمیہ جلد دوم صفحہ ٤٩٨ پر محقق عصر تاج الفقہا مفتی اختر حسین علیمی تحریر فرماتے ہیں) 
 صورت مسئولہ میں بعد قبضہ خطرہ ہو (جیسا کہ آج کل گورنمنٹ بلڈوزر چلانے میں کر رہی ہے) تو منع ہیکہ خود کو تذلیل و تحقیر و پریشانی میں مبتلا کرنا ہوا عملہ گورنمنٹ کو پتہ چلا تو گرفتاری بھی عمل میں لا سکتی ہے، ورنہ قبضہ کرنے میں شرعی کوٸی گناہ نہیں، اگر چہ مصلحت و حکمت اور قانونِ ملکی میں خطرات کا اندیشہ برقرار ہے! پس بغیر گورنمنٹ کی جانب سے الاٹمنٹ کے قبضہ نہ کرنے ہی میں عافیت ہے! واللہ اعلم بالصواب 
  کتبہ؛ محمد جابر القادری رضوی 
جمشید پور جھارکھنڈ؛ رابطہ☜8369465173