حضرت حاجی سید وارث علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ انھیں طبقہ اولیائے ہند میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی پاکیزہ حیات اور روشن کردار نے کتنے ہی دلوں کی دنیا کو پر نور بنا ڈالا۔ کتنے ہی زنگ آلود دل مثل آئینہ بن گئے۔ کتنے ہی روزن، رہ بر بن گئے۔ خاک دانِ گیتی پر ہزاروں انقلابات رونما ہوئے۔ صالح انقلاب، فاسد انقلاب، سیاسی و معاشی انقلاب، تہذیبی و تمدنی انقلاب غرض انواع و اقسام کے حالات وتغیرات منصہ شہود پر آئے۔ لیکن ان میں وہی انقلاب دیر پا اور اثر خیز رہا جن سے حق کی روشنی پھیلی۔ من کی دنیا میں چاندنی پھیلی۔ کردار کے صحن میں چمک ظاہر ہوئی۔ حضرت وارث پاک نے صالح انقلاب برپا کیا جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ فکر وارثی کے اثرات آج بھی گلشن حیات کو مہکا رہے ہیں۔
کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
ولادت ونسب
حضرت حاجی حافظ سید وارث علی شاہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نیشاپور کے سادات گھرانے سے تعلق رکھتے جو نفس کی پیروی کرتے ہیں اور شریعت سے روگردانی ۔ کھانے کے وقت بھی سنت کے مطابق نشست فرماتے بہ قول شیداوارثی نہ کبھی اس نشست میں تغیر ہوا اور نہ برہنہ سر آپ نے کھانا تناول فرمایا غذا سادا ہوتی۔ آپ کو شرید مرغوب تھا۔ شوربے میں چپاتی کے ٹکڑے ڈال کر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے شرید" کہا جاتا ہے۔ جو تاج دار مدینہ امام الانبیا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو پسند تھا۔ سچ ہے جو عشق نبوی میں سرشار ہوتا ہے اسے محبوب کی غذا سے بھی لگاؤ ہو جاتا ہے اس لیے حضرت وارث پاک ثرید کو پسند فرماتے۔ مال دنیا کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا، یہی وجہ ہے کہ آپ مال سے بے نیاز رہے، بے شک ! جو اللہ والے ہوتے ہیں انھیں مال کی طلب اور حاجت نہیں ہوتی ۔ وہ مالک پر بھروسا کرتے ہیں اور قناعت اختیار کرتے ہیں۔ راضی بہ رضائے مولا رہتے ہیں۔ آپ صائم الدہر اور قایم الیل تھے۔
اسفار وسیاحت
سیر و سیاحت بزرگوں کی سیرت کا ایک تابندہ باب ہے۔ حضرت وارث پاک نے اپنی مبارک زندگی کا بڑا حصہ سفر و سیاحت میں گزارا۔ اور اس کے توسط سے ہزاروں آلودہ ذہنوں کی اصلاح کی، دین کی سچائی عام کی بھر کی آوارگی دور کی ، قلب کی صفائی کی ، صوفیائے کرام کی تعلیمات کو عام کیا۔ ۱۲۵۲ ھ میں پا پیادہ زیارت حرمین کو گئے ..
حضرت وارث پاک کی خدمات کا باب ان کے اسفار کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے... وہ عراق گئے، ایران گئے، افغان گئے ، دہلی گئے ، ملتان گئے، آگرہ و فیروز آباد گئے، اناؤ وشکوہ آباد گئے، جے پور و اجمیر گئے ، ناگور و مبئی گئے جہاں گئے احیاے حق فرمایا، باطن کی اصلاح کی محبت سے، مروت سے، شفقت سے ، نرمی سے، ملاحت سے۔
حرم شریف میں قیام کے زمانے میں مقامِ ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز نفل میں کلام پاک مختم فرماتے۔ حرمین میں آپ کے اخلاق اور استقامت کا چرچا رہا۔ اور خلق کثیر مستفیض ہوئی۔ اس دوران بیعت و ارادت اور سلسلہ وارثیہ کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ پہلے سفر حجاز میں تین یا چار حج فرمائے، ۱۲۵۷ ھ میں وطن لوٹے۔ دوسرا سفر حجاز ۱۲۶۰ھ میں اختیار کیا اور ممبئی بندرگاہ سے روانہ ہوئے ۔ اس سفر میں درجنوں بلاد و امصار میں اشاعت حق کی۔ روس بھی گئے۔ اس سفر میں بہت سے عیسائی حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے ۔ ۱۴ سال تک مسلسل سیاحت فرمائی۔ جن میں حجاز کا سفر تین بار ہوا۔
حضرت وارث پاک فرماتے ہیں: "ہم مسافر ہیں اور مسافرت اختیار فرما کر دین کی خدمت کی۔ آپ کے لباس احرام" کا معاملہ یوں ہے کہ جب حج کے لیے احرام باندھا تو لباس خیرات فرمادیا اور اسی وقت سے احرام آپ کا لباس ہوا۔ ۱۲۵۷ ھ میں جب آپ حجاز مقدس سے لوٹے احرام پوش تھے۔
دعوتِ حق کی چند مثالیں:
آپ کی بارگاہ میں مختلف مذاہب کے افراد آتے ۔ سکون کے متلاشی آتے ۔ آپ ہر ایک کو راہ حق کی ہدایت فرماتے۔ دین کی سچائی واضح فرماتے۔ بعض قبول حق بھی کر کے ایمان کے جوہر سے مالا مال ہو جاتے۔ آپ غیر مسلم عقیدت مندوں کو جو نصیحت فرماتے ان میں ایک قول یہ بھی ہے جو ایک ہندو کو ارشاد فرمایا: ” برہم پہچانو پتھر کو نہ پوجنا۔ اور جھٹکے کا گوشت نہ کھانا ۔ [ حیات وارث ص ۱۸۷]
یعنی حق کو پہچانو ۔ باطل کی پوجا چھوڑو اور حق قبول کر کے اسلامی طریقے سے ذبح کیا ہوا گوشت کھاؤ۔ ایک مہنت نے دعوت کی حضرت وارث پاک نے دعوت قبول کی۔ مقصد اسے حق کی طرف بلانا تھا۔ وہ آپ کے کردار سے متاثر ہوا۔ اس نے کہا: مجھے نصیحت فرمائیں، ارشاد فرمایا: ” پتھر کو نہ پوجنا۔ اور دین ودنیا کا جو کام کرو خدا کی محبت سے خالی نہ ہو۔ اور حق کی طلب میں حق کا ذکر اس طرح کیا کرو کہ ذکر سے کوئی سانس خالی نہ جائے ۔ "
[نفس مصدر ص ۱۹۸]
ایک مرتبہ مدراس سے ایک یہودی اپنی اہلیہ کے ساتھ حضرت وارث پاک کی خدمت میں آیا۔ اور فیض کی درخواست کی۔ اس پر اسے ان الفاظ میں تلقین کی : 'اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرو کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام خدا کے رسول اور کلیم تھے اسی طرح محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے حبیب اور پیغمبر ہیں۔ اور جو چیزیں قرآن میں حرام اور ممنوع ہیں ان سے پر ہیز کرنا اور جو فرض ہیں ان کو بجالانا۔“ [نفس مصدر ]
محبت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
ایمان جب ہی کامل ہوگا جب کہ آقائے کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت کی جائے ، بے عشق نبوی اللہ راضی نہیں ہو سکتا ،
امام احمد رضا محدث بریلوی نے بہت خوب فرمایا،
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضا ئے محمد ﷺ
حدیث پاک میں ارشاد ہوا:
لایو من احدكم حتى اكون احب اليه من والده وولده والناس اجمعین"
[ بخاری شریف ]
تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہ ہوگا جب تک میں اس کو اس کے ماں باپ ، بال بچے ( بلکہ اس کی جان ) اور سارے جہاں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔“
حضرت وارث پاک معرفت کے اس بلند مقام پر فائز تھے جہاں جلوے نگاہوں کا مشاہدہ ٹھہرتے ہیں۔ ایسی ذات عشق نبوی میں کس قدر سرشار ہوگی اس کا اندازا لگانا مشکل ہے۔ بےمحبت نبوی زندگی کو نا کام جانتے تھے۔ حضرت وارث پاک فرماتے ہیں: "بغیر محبت کے ذکر سے کچھ نہیں ہوتا ۔
مفتی اعظم ہند نوری بریلوی نے دل لگتی بات کہی
جان ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہوگا
آپ اکثر مریدین کو درود شریف کی تعلیم فرماتے ۔ اس میں اہتمام کی تاکید فرماتے ۔ اس سلسلے میں آپ کے بعض ارشادات ملاحظہ فرمائیں :
(1) بعد فرائض کے درود شریف پڑھا کرو۔
(۲) پابندی کے ساتھ درود شریف پڑھنا بہتر ہے۔
(۳) ہر وقت درود شریف پڑھا کرو مگر با وضو۔
یوں ہی میلاد کی محافل بھی اہتمام سے منعقد فرماتے ۔
وعظ ارشاد
خاصان خدا اولیائے کرام نے اکثر اپنے مشن کی تکمیل وعظ و ارشاد کے ذریعے کی ،حضرت وارث پاک نے بھی وعظ وارشاد کے توسط سے خلق کثیر کو گم رہی کے دَل دَل سے نکال کر اسلام و شریعت کے راستے پر گام زن فرمایا۔ اور سیر و سیاحت میں بھی وعظ کا اہتمام رہا۔ جس کے زیر اثر "من" کی دنیا کثیر افراد نے سنواری۔ آپ سامعین کی زبان اور استعداد کی رعایت کے ساتھ وعظ فرماتے۔ عربی ، فارسی اور اردو کے علاوہ متعدد علاقائی زبانوں میں خطاب فرمایا۔ لہجہ سادا و برجسته، پر کشش، عام فہم ، دل پذیر اور اسرار و معارف سے پر اور حکمت کا عنصر غالب ۔ غیر شرعی معاملے میں رعایت نہیں فرماتے اور شریعت پر عمل کی ہدایت دیتے لیکن انداز داعیانہ ہوتا۔
بعض کم علم افراد جو تمام مذاہب سے اشتراک کی بات اڑاتے ہیں کہ وارث پاک کے یہاں مذہبی دیوار نہ تھی ، وہ بے دلیل جھوٹ کہہ جاتے ہیں؛ بلا شبہ ولی کی بارگاہ میں حق و باطل کا امتیاز رکھا جاتا ہے۔ بے راہ رو کی اصلاح الگ چیز ہے اور باطل مذاہب سے اشتراک چیزے دگر ۔ وارث پاک کی حیات مبارکہ دین کے استحکام کے لیے وقف و سر گرم عمل تھی ۔
چند ارشادات
(۱) پابندی کے ساتھ نماز پڑھا کرو کیوں کہ نماز سراپا عجز کی تصویر اور عبدیت کی نشانی ہے۔
(۲) جو شخص باوضو رہتا ہے قیامت کے روز وہ پر ہیز گاروں کی صف میں کھڑا ہوگا۔
(۳) محبت ہی کے سبب انسان اشرف المخلوقات ہوا
(۴) موحد وہ ہے جس کے دل سے ماسوائے اللہ کا خیال محو ہو جائے۔
(۵) توکل انبیاے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
(۶) توکل حیا کی علامت ہے۔
(۷) خدا تمہارے رزق کا ضامن ہے
(۸) حسد میں سوائے نقصان کے فائدہ نہیں۔
(۹) جس نے حق کو پکڑ اوہ کام یاب اور جس نے خلق پر بھروسا کیا وہ خراب ہوا۔
(۱۰) نفس کی دوستی ہلاک کرتی ہے۔
(۱۱) مرید کی ترقی کا زینہ ادب ہے۔
(۱۲) جو حق سے ڈرتا ہے وہ خلق سے بے خوف رہتا ہے۔
(۱۳) دنیا میں زن، زمین، زر کی وجہ سے انسان جھگڑے میں پڑتا ہے جب ان تینوں کا تعلق دل سے نکل
جائے تو پھر اس دل کا نام ” قلب مطمئنہ “ ہو جاتا ہے
(۱۴) جو جس کی قسمت کا ہے وہ اس کو ضرور پہنچتا ہے۔
(۱۵) جو شخص خدا پر بھروسا کرتا ہے خدا اس کی مدد ضرور کرتا ہے۔
نوٹ :
حضرت وارث پاک کے تمام ارشادات حیات وارث از شید آوارثی مطبوعہ راول پنڈی کے متفرق صفحات سے نقل کیے گئے ہیں۔]
آپکا وصال مبارک
۳۰محرم الحرام ۱۳۲۳ھ کو آسمان ولایت کا چاند گہن میں آ گیا
آفتاب ولایت غروب ہو گیا۔ حضرت وارث پاک کا وصال جس مقام پر ہوا وہیں آپ کی لحد مبارک بنی۔ جو آج بھی نگاہوں کا محور اور مرجع خاص و عام بنی ہوئی ہے۔ جہاں دل مصفی اور فکر منور ہوتی ہے۔ جہاں روح شاد اور من کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ جہاں دعا مقبول اور عرض قبول ہوتی ہے۔
اللہ کریم فیض وارثی سے ہمیں بھی وافر حصہ عطا فرمائے۔ اور اپنے محبوب بندوں کے دامنِ اقدس سے ہمیں منسلک رکھے۔ آمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم ۔
نوٹ:
نوٹ: یہ مقالہ راقم نے کم سنی میں اپنے ابتدائی قلمی دور میں تحریر کیا تھا ؛ امسال ۱۳۲۳ھ میں عرس وارث پاک کے مبارک موقع پر پہلی بار بزم مطالعہ کی نذر کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے : اہل علم سے گزارش ہے کہ اگر کوئی سہو نظر آئے تو اصلاح فرمائیں۔
منجانب؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی
0 تبصرے