السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
تمام عاشقان رضا کو (۱۰۴واں) عرس قادری رضوی کی ڈھیروں مبارک بادیاں پیش ہیں 
اپنے اپنے پیر پر تو سب کو ناز ہے لیکن جس مرید پر پیر کو ناز ہے اسے امام احمد رضا کہتے ہیں. 

(امام احمد رضا کے رفاہی کارنامے) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۲۷۲ھ/ اور وصال ۱۳۴۰، اپنے عہد کے ایک متدین عالم دین، افقہ الفقہا، سلطان المحدثین، استاذ المفسرین اور خدا وند قدوس کی جانب سے عطا کردہ ایک مخصوص منصب ” درجہ مجددیت“ پر فائز تھے، اور اس بات سے عام و خاص سبھی بخوبی واقف ہیں کہ مجدد مبعوث من اللہ ہونے کی وجہ سے تمام بندوں میں امتیازی شان کے حامل ہوا کرتے ہیں ان کا علم و فضل زہدو تقویٰ اور اتباع سنت کا جزبہ دوسروں کے مقابل بہت اعلیٰ وارفع ہوا کرتا ہے، یہی وجہ تھی کہ امام احمد رضا اپنے معاصرین کے مابین جہاں اپنے علم و فضل کی بنیاد پر امام تسلیم کیے گئے وہیں عمل بالسنّہ اور اتباع شریعت کی وجہ سے بھی امام تسلیم کیے گئے، 
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ الرضوان کی زندگی کے جملہ پہلوؤں کو بغور دیکھا جائے تو ہر پہلو حد درجہ پر کشش اور جاذب نظر آتا ہے، پچھلے سو سال سے اہل قلم مسلسل اعلیٰ حضرت کی تہ دار شخصیت پر تواتر کے ساتھ اپنے قلم کو چلا رہیں ہیں مگر ذات رضا کی رعنایائیاں ہیں کہ تا حال احاطہ تحریر میں نہیں آسکی 
(اعلی حضرت کے رفاہی کار نامے صفحہ ۷) 
اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ چودہویں صدی ہجری کے بالا تفاق مجدد تسلیم کئے گئے اور برصغیر پاک وہند ہی نہیں بلکہ عرب وعجم کے مشاہیر علما اور اساطین علم وفضل نے آپ کی مجددانہ حیثیت کو شرح صدر کے ساتھ تسلیم کیا اور آپ کے خدادا علم سے استفادہ بھی کیا ۔ اللہ رب العزت جب کسی شخصیت سے کوئی اہم کام لیتا ہے تو پہلے ہی سے اس شخصیت کی آسانی کے سامان فراہم فرمادیتا ہے تا کہ وہ شخصیت غم دنیا سے بے نیاز ہوکر اشاعت دین متین ۔ کے کاموں کو انجام دیتی رہے۔آپ صدر اول سے لیکر زمانہ موجودہ تک کسی بھی اہم شخصیت کو دیکھ لیں قدرت کی یہی کاریگری نظر آۓ گی ۔ کیوں کہ اگر وہ شخصیت غم روزگار سے بے نیاز نہیں ہوئی تو دینی کاموں کے لئے ضروری وقت نہیں مل پاۓ گا اس لئے اللہ تبارک وتعالی پہلے انتظام فرمادیتا ہے تا کہ مذہبی کاموں کی انجام دہی میں کسی طرح کا کوئی خلل نہ پڑے۔قدرت نے اعلی حضرت کو بھی خاندانی اعتبار سے ایسا ہی خودکفیل بنایا تھا کہ انہیں ساری عمر کسی چیز میں وقت لگانے کی نوبت ہی نہیں آئی اور وہ آرام سے ’ ’ تجدید دین ‘ ‘ کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ (اعلی حضرت کے رفاہی کار نامے صفحہ ۵)
 واللہ اعلم
رشحات قلم؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈی

۔ ٢٤/صفر١٤٤٤ھ بروز بدھ بمطابق ٢١/ستمبر٢٠٢٢ء