السلام عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

ایک سوال عرض یہ ہے کہ کوئی غیر مسلم دوستی کی وجہ سے افطاری کی دعوت دے تو کیا ان کے یہاں افطاری کر سکتے ہیں مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں برائے مہربانی۔ السائل: محمد شفیع احمد گھر بہار۔
  وَعَلَيْكُم السلَام وَرَحمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
الجواب بعون الملک الوھاب،
 اگر کوئی غیر مسلم یعنی کافر مسلمان کو افطار کی دعوت دے اور مسلمان کو یہ معلوم ھیکہ وہ جو کھانا کھلا رہا ہے اس میں کسی نجس چیز کی ملاوٹ نہیں ہے تو اسکی دعوت کو قبول کرنا مباح ہے. جیساکہ فتاوی علمگیری میں ہے البتہ اگر کوئی غیر مسلم بوقت افطار موجود ہو تو اس کو بھی کھانے میں شامل کر سکتے ہیں ْ اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم دعوت افطار کرے اور مکمل یقین ہو کہ وہ حلال چیز سے افطار کرائے گا اور اس کی وجہ سے مسجد کی جماعت کے فوت ہوجانے کا خطرہ نہ ہو تو اس کی دعوت افطار میں شرکت کی گنجائش ہے،
  ”ولا با س بالذھاب الی ضیافۃ اھل الذمۃ اھ”- (حوالہ فتاوی علمگیری جلد ۵ صفحہ ۳۴۷) اور گوشت ہو تو حرام ہے. جیساکہ اعلی حضرت فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ چیزیں جو خاص ہندؤں کے کھانے کے ہیں. ہاں ہندوں کے یہاں کا کھانا اگر گوشت ہوتو حرام ہے. اور اس کے سوا اور چیزیں مباح ہیں .جب تک کہ انکی حرمت یا نجاست کی تحقیق نہ ہو اور بچنا اولی ہے... (بحوالہ.. فتاوی رضویہ جلد ۹ نصف ثانی صفحہ ۲٦١) 
 واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
 کتبہ؛ محمد مشاہد رضا قادری رضوی