السلام .علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے کہ آج کل لوگ جو بینک سے لون لیتے ہیں کیا یہ جائز ہے بحوالہ جواب عنایت فرمائیں
سائل محمد ناصر اجمل کٹیہار بہار
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب ۔بینک اگر مسلمان کا ہے یا مسلم اور غیرمسلم کا مشترکہ ہےتو ایسے بینک سے سود دینے کی شرط پر قرض لینا حرام ہے اور سود دینے والا بھی لینے والے کے مثل گنہگار ہےکہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دونوں پر لعنت فرمائی ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے۔لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سوا یعنی سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سود لینے والوں،سود دینے والوں،سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں(مسلم شریف)اور اگر بینک یہاں کے خالص کافروں کا ہےتو اگرچہ ایسے بینک سے زائد دینے کی شرط پر دوکان وغیرہ کےلئے روپیہ لانا شرعا سود نہیں کہ یہاں کے کفار حربی ہیں اور مسلمان وحربی کے درمیان سود نہیں جیساکہ حدیث شریف میں ہے لاربا بین المسلم والحربی مگر ایسے بینک سے بھی بلاضرورت شدیدہ قرض لانا اور انہیں نفع دینا منع ہے۔(فتاوی فیض الرسول، ج٢، ص٣٩٠،شبیر برادرز لاہور/ایساہی فتاوی برکاتیہ، ص٢٠٨، پر ہے)
واللہ تعالی اعلم بالصواب،
کتبہ،احقر العباد،محمد صادق عالم رضوی القادری دیناج پوری۔۔۔
0 تبصرے