السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ عقیدہ کا کیا مطلب ہے اور عقائد کسے کہتے ہیں
سائل؛ حافظ محمد مشتاق راجوری
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
امام اعظم فی الحدیث والفقہ ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی مقدس کتاب میں عقیدہ اور عقائد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
عقیدے کی لغوی تعریف؛ عقیدہ دراصل لفظ عقد سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کو باندھنا، جیسے کہا جاتا ہے "اعتقد کذا"
(میں ایسا اعتقاد رکھتا ہوں) یعنی میں نے اسے
(اس عقیدے کو) اپنےدل اور ضمیر سے باندھ لیا لہذا عقیدہ اس اعتقاد کو کہا جاتا ہےجو انسان رکھتا ہے کہاجاتا ہے عقیدہ حسنۃ (اچھا عقیدہ) یعنی "سالمۃ من الشک" (شک سے پاک عقیدہ) عقیدہ در حقیقت دل کے عمل کا نام ہے اور وہ ہے دل کا کسی بات پر ایمان رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا
عقیدہ کی شرعی تعریف!؛ اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھنا اور انہیں ارکان ایمان بھی کہا جاتا ہے
شریعت دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے عقائد اور اعمال،،،
عقائد ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق کیفیتِ عمل سے نہیں ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اسکی عبادت کا وجوب کا اعتقاد کا رکھنا، اس طرح تمام مذکورہ ارکان ایمان کا اعتقاد رکھنا اور یہ اصل بنیاد جڑیں بھی کھلاتے ہیں
اعمال کا تعلق کیفیتِ عمل سے ہے، مثلاً نماز زکوٰۃ روزہ اور دیگر عملی احکامات یہ فروع ساخیں بھی کہلاتے ہیں کیونکہ یہ فروع شاخیں ان عقائد اصل جڑوں کی صحت یا فساد پر قائم ہوتے ہیں
لہٰذا صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے اور اسکی درستگی پر ہی اعمال کا صحت کا دارومدار ہے
(بحوالہ شرح فقہ اکبر صفحہ ۴۹)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
شرف قلم؛ گدائے حضور تاج الشریعہ
محمد عارف رضا رضوی قادری عفی عنہ
انٹیاتھوک بازار ضلع گونڈہ یوپی
0 تبصرے