کچھ دن پہلے: 'المنطق الحديث و مناهج البحث (Modern logic & methods of apologetics)' کے لیکچر میں، استاد گرامی: 'ڈاکٹر وجیہ احمد (حفظه الله)' نے 'قانون الغائية (Teleology)' پر زبردست گفتگو فرما کر، یہ بتایا کہ کائنات میں موجود ہر چیز کے پیچھے ایک خاص مقصد و ہدف موجود ہے. کوئی چیز بے مقصد نہیں. الله (ﷻ) نے کسی بھی چیز کو بے کار پیدا نہیں کیا، بلکہ ہر چیز کو پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے، اور ہر چیز سے کسی نہ کسی دوسری چیز کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے. یہ ساری گفتگو، کتاب کی اِس عبارت کے تحت ہوئی، جس میں 'علامہ ڈاکٹر انور حامد عیسی' لکھتے ہیں کہ:
"و لو لا اعتقادهم أن كل معلول له علة، و أن العلل المتشابهة تنتج معلولات متشابهة، و أن كل شيء يهدف لغاية. لو لا هذا الاعتقاد، لما درسوا الظواهر، و بحثوا عن أسبابها، و لما استطاعوا أن يخرجوا بقوانين عامة تفيد فى تقدم البشرية"،
"اگر لوگوں کا یہ عقیدہ نہ ہوتا کہ:
ہر معلول کی کوئی نہ کوئی علت ہوتی ہے؛
اور ایک جیسی علتوں سے ایک جیسے معلول پیدا ہوتے ہیں؛
اور ہر چیز کسی نہ کسی مقصد کے پیچھے ہے؛
تو لوگ ظاہری دنیا کا مطالعہ نہ کرتے، اور نہ ہی اس کے پیچھے چھپے ہوئے اسباب کو تلاش کرتے، اور نہ ہی ایسے عام قانون بنا پاتے جن سے انسان کو ترقی کی طرف بڑھنے کا موقع ملا."
[المنطق الحديث و مناهج البحث، صفحہ: 42]
اِسی گفتگو کے دوران میں استادِ گرامی سے وہ سوال کر لیا جو میں نے ملحد 'جاوید اختر' کے ایک انگریزی انٹرویو میں سنا تھا کہ:
•مچھر کو کیوں پیدا کیا گیا؟
•اسے پیدا کرنے کا کیا فائدہ؟
•اس کے پیچھے بھلا خدا نے کسی کے لئے کیا مقصد رکھا ہے؟
اِس قسم کے بے جا اعتراض کر کے وہ ہنسی اڑا رہا تھا، اور اُس کی بات پر اُس کے سامنے بیٹھے سب ہنس رہے تھے. کیونکہ اِن میں سے کسی کا بھی دماغ اِس درجے کا نہیں، جس سے یہ حکمتِ الہیہ کو سمجھ سکیں؛
میرے اِس سوال پر، استادِ گرامی نے ملحدین کی جو دھجیاں اڑانی شروع کی ہیں، اُن کی ایک جھلک پیش کر رہا ہوں:
•پہلا جواب اصول سے دیا، اور فرمایا:
"عدم الوجدان لا يدل على عدم الوجود"،
"کسی چیز کو محسوس نہ کر پانا، اُس چیز کے موجود نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتا"،
ملحد جاہل ہے، اس لئے وہ مچھر کے پیدا ہونے کے فائدے محسوس نہیں کر سکا. اُس کا اِن فائدوں کو محسوس نہ کر پانا، اِس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ مچھر کے پیدا ہونے کا کوئی فائدہ نہیں. بلکہ اِس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ملحد، مچھر کی پیدائش کی حکمتیں نہیں سمجھ سکا؛
•دوسرا جواب سائنس کے حساب سے دیا:
مچھر کا، ہمارے ماحول (ecosystem) میں بہت بڑا کردار ہے. مچھر سے بڑی بڑی دوسری مخلوق بھی ہیں. اِن میں سے بہت سی مخلوق کا پیٹ، مچھر کو کھانے سے بھرتا ہے، جیسے: بہت سے پرندے، مچھلی، مکڑی، چھپکلی، مینڈک، گرگٹ وغیرہ. تو مچھر کی پیدائش کا یہ فائدہ بھی ہے کہ اُس کے ذریعے بہت سی دوسری مخلوق کو رزق ملتا ہے؛
•تیسرا جواب اسلامی نظریے سے دیا:
الله (ﷻ) نے مچھر کے ذریعے، نمرود جیسے ظالم حکمران کو ہلاک کر کے یہ بتا دیا کہ مچھر، الله (ﷻ) کی فوجوں میں سے ایک فوج ہے، اور الله (ﷻ) کی قدرت سے متکبر انسان کو ایک چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی مار سکتی ہے. تو مچھر کی پیدائش سے یہ فائدہ ہوا کہ الله (ﷻ) کی قدرت کی پہچان انسان کو ہو گئی؛
استادِ گرامی نے مختصر انداز میں یہ تین جواب دے کر، اپنے لیکچر کے موضوع کو پکڑ لیا. اِس کے بعد مجھے جستجو ہوئی کہ اس پر مزید مطالعہ کیا جائے کہ آخر مچھر کو عبث میں پیدا کیا گیا ہے، یا واقعی کچھ راز چھپے ہیں، اِس کی تخلیق کے پیچھے...!؟
پھر کچھ چیزیں، جو اسلامی اور سائنسی دنیا میں، میں نے پائیں، وہ یہ ہیں:
•الله (ﷻ) نے دنیا کے لئے مچھر کی مثال بیان فرمائی، کیوں کہ:
"إن البعوضة تحيا ما جاعت، فإذا سمنت ماتت"،
"مچھر جب تک بھوکا رہتا ہے، تب تک زندہ رہتا ہے. اور جب پیٹ بھر لیتا ہے تو مر جاتا ہے."
[تفسیر الطبری، و تفسیر ابن کثیر، تحت آیت نمبر: 26 (سورہ بقرہ)]
اِسی طرح جب لوگ، الله (ﷻ) کو بھول کر دنیا سے ہی پیٹ بھرنے میں لگ جاتے ہیں، تو روحانی طور پر مردہ ہو جاتے ہیں. مگر جب پیٹ بھوکا ہوتا ہے، تو رزق دینے والے کی یاد آتی ہے جس سے دل زندہ ہو جاتے ہیں؛
•مچھر، پودوں کے درمیان 'زِیرَگی (Pollination)' کا کام کرتا ہے. جس سے فصلوں میں بیج وغیرہ پیدا ہوتے ہیں.
['Mosquito phytophagy: sources exploited, ecological function, and evolutionary transition to haematophagy', By Daniel A. H. Peach, & Gerhard Gries, first published: 13 Nov. 2019]
•مؤنث مچھر ہی کاٹتی ہے. مچھر کا ڈنک، ایک پائپ کی طرح اندر سے خالی (Hollowed) ہوتا ہے. جس کے ذریعے وہ انسان کی کھال سے خون چوس لیتی ہے. انڈے دینے کے لئے، مادہ مچھر کو خون پینے کی ضرورت ہوتی ہے.
['The invincible deadly mosquitoes', By B. K. Tyagi, Pg. No. 79]
اِس سے معلوم ہوا کہ مچھر کی نسل کا بڑھنا، ہمارے خون پر موقوف ہے. ہمارے خون میں صرف اُس کی غذا ہی نہیں، بلکہ اُس کی آنے والی نسل کو پیدا کرنے کا ذریعہ موجود ہے؛
ساتھ ہی اس سے الله (ﷻ) کی قدرت بھی معلوم ہوتی ہے کہ خالقِ کائنات نے اِتنی پتلی چیز اندر سے مُجَوَّف (hollowed) پیدا کر دی، جبکہ قدرت کا مقابلہ کرنے والے ملحد بھی اب تک ایسی پتلی و اندر سے پولی کوئی سوئی بھی نہیں بنا سکا؛
•مچھر کو 'بے کار میں پیدا ہوا' کہنے والے بتائیں کہ 1902ء میں اِسی مچھر کی تقریباً 3600 انواع میں سے صرف ایک نوع پر تحقیق کرنے کے سبب، 'رونالڈ روس (ت: 1932ء)' کو طبّ کے شعبے میں نوبل انعام ملا تھا، یا نہیں؟ کیوں کہ اِس نے یہ ثابت کیا تھا کہ 'انوفیلیس (anopheles)' نام کی ایک مادہ مچھر کی وجہ سے ملیریا پھیلتا ہے؛
ارے مچھر کی وجہ سے نوبل انعام مل گیا، اب اِس سے بڑھ کر اور کیا فائدہ چاہتے ہو...!؟
•مچھر کو بے فائدہ سمجھنے والوں کو، کیا 'پاناما نہر (Panama Canal)' کا واقعہ یاد نہیں؟ جب امریکا کی مسلح افواج کی دبنگئی کو، مچھروں کے لشکر نے اپنے معمولی سے ڈنک کے حملوں سے درہم برہم کر دیا تھا. اکثر فوجی ملیریا اور زرد بخار سے ہلاک ہو گئے، بہت سے بھاگ گئے، اور باقی کی ہمت ٹوٹ گئی؛
خلاصہ یہ ہے کہ الله (ﷻ) کی خلق میں ہر لمحے، اور ہر پہلو پر راز و حکمتیں پنہاں ہیں. مگر تلاش کرنے، اور جاننے کے لئے عقلِ سلیم چاہئے. جو ایک ملحد کے پاس نہیں ہو سکتی؛
کبھی غور کیا ہے کہ الله (ﷻ) نے قرآنِ مجید کے شروع میں اپنی اِس چھوٹی سی مخلوق 'مچھر' کا ذکر کیا، جب کہ قرآن کے آخر میں اپنی بڑی مخلوق 'ہاتھی' کا ذکر کیا. یقیناً، قرآن کا یہ حسنِ ترتیب، لا تعداد اسرار کو ظاہر کر رہا ہے.
محمد قاسم القادری الازہری،
شعبۂ عقیدہ و فلسفہ، جامعہ ازہر قاہرہ (مصر)
تاریخ: 11/نومبر، 2024ء
0 تبصرے