کیا فرماتے ہیں علمائے دین
ایسے شخص کے بارے میں
کہ ایک عورت کی نکاح ہوئی اور اسکا پہلا شوہر طلاق نہیں دیا
پھر اسی عورت کی دوسری جگہ شادی ہوئی
تو کیا اسکا نکاح واقع ہوئی
اور اسکی نکاح پڑھانے والے شخص پر کیا حکم ہے
جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دیکر شکریہ
کا موقع دیں نوازش کرم ہوگی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صورت مسئولہ میں وہ عورت اپنے پہلے ہی شوہر کے نکاح میں ہے کیونکہ شادی شدہ منکوحہ کا دوسرے سے نکاح نہیں ہو سکتا ہاں اگر پہلا شوہر طلاق دے یا اسکی موت ہوجائے پھر عورت اسکی عدت گزار کر دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے
اور جس نے منکوحہ عورت سے شادی کری تو اس مرد پر بھی لازم ہے کہ فورا اس عورت سے جدا ہوجائے
اگر دونوں جدا نہیں ہوتے ہیں تو انکا مکمل سماجی بائیکاٹ کیا جائے
البتہ اگر امام انجانے میں نکاح پڑھایا تو یہ بات جب امام کو معلوم پڑے تو وہ فورا دونوں کو ایک دوسرے سے الگ ہوجانے کا حکم دے اور باقاعدہ اس معاملے کو شریعت کا حکم بتا کر اعلان کرے
اگر امام صاحب کو پہلے سے خبر تھی کی منکوحہ عورت شادی شدہ ہے اسکے باوجود امام صاحب نے نکاح پڑھایا تو گویا کہ انہوں نے زنا کا راستہ کھول دیا اب امام پر لازم ہیکہ توبہ واستغفار کرے اللہ کی بارگاہ میں روئے گڑ گڑائے اور اپنی غلطی پر نادم و پشیماں ہو اور نکاح نہ ہونے کا اعلان کرے اور ساتھ ہی ساتھ نکاحانہ پیسہ بھی واپس کرے اور اگر یہ جان کر نکاح پڑھایا کہ ایسا کرنا جائز ہے یعنی دوسرے کے منکوحہ سے بغیر طلاق کے نکاح کرنا تو گویا کہ امام صاحب نے کفر کیا ہے اس پر لازم ہیکہ تجدید ایمان کرے اور اگر شادی شدہ ہو تو تجدید نکاح کرے اور اگر مرید ہو تو تجدید بیعت کرے,
ارشاد باری تعالیٰ ہے وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ ترجمہ: اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں(پارہ ۵ سورہ نساء آیت ۲۴)
ایسا ہی ان دونوں حوالہ جات میں موجود ہے؛ــــ⇓
(حوالہ فتاوی یورپ ص٤٢٨)(فتاوی علیمیہ ج ٢ ص ۳۱)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ" محمد عارف رضوی قادری گونڈوی
0 تبصرے