مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر [1542-1605ء] تمام مغل بادشاہوں میں سب سے زیادہ لبرل اور آزاد خیال واقع ہوا تھا۔کچھ اس کی ناخواندگی اور کچھ درباری علما کے نفاق، حرص اور طمع نے اسے مذہب بیزار بنانے میں اہم رول ادا کیا۔اکبر کے تبدیلی مزاج میں اس کی چوتھی بیوی ہرکھا بائی(یہی خاتون جودھا بائی کے نام سے مشہور ہے) نے بھی اہم رول ادا کیا۔ہرکھا بائی آمیر کے راجا بھارمل سنگھ کی بیٹی تھی۔یہی وہ خاتون ہے جو اکبر کے نکاح میں آنے کے باوجود ہندو دھرم پر ہی قائم رہی، جس کی بنیاد پر اکبر کا رجحان ہندو مذہب اور بت پرستی کی جانب بھی بڑھتا گیا۔ہندو مذہب میں دل چسپی کے باعث اکبر نے ہندوؤں کے مقدس گرنتھ راماین اور مہابھارت کا فارسی زبان میں ترجمہ کرایا۔ دربار میں مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کو عہدے دِئے۔ ہندوؤں کی خوش نودی کی خاطر جزیہ (یعنی وہ شرعی محصول جو اسلامی حکومت کفار سے ان کی جان و مال کے تحفظ کے بدلے میں وصول کرے) کا قانون ختم کیا ۔ ہرکھا بائی [جودھا بائی] کی محبت میں شہنشاہ اکبر اس قدر فریفتہ تھے کہ انہوں نے گائے کا گوشت تک کھانا چھوڑ دیا تھا۔
اکبر ہی کے زمانے میں ہندو مذہب کے دو بڑے فاضل اور اعلی درجے کے مذہبی مزاج رکھنے والے افراد موجود تھے، ایک تان سین [1500-1589] تھے جو اکبر کے نو رتنوں میں شامل تھے جب کہ دوسرے سور داس [1478-1583] تھے جو ایک معروف موسیقار اور شری کرشن کے بڑے بھکت تھے۔تانسین کی طرح بادشاہ اکبر سورداس کے بھی بڑے مداح تھے۔ یہاں تک کہ صرف سورداس کے بھجن سننے کے لیے متھرا تک کا سفر کیا اور سورداس کو بڑے انعام واکرام سے بھی نوازا۔ ہندو مذہب میں اکبر کی غیر معمولی دل چسپی اور ہندو باباؤں سے اکبر کی مثالی وابستگی کے باوجود کسی ایک ہندو رشی مُنی نے کبھی بھی یہ شکایت نہیں کہ آپ کے دادا بابر نے ہمارے بھگوان رام کا جنم استھان توڑ کر مسجد بنائی ہے۔ اگر کسی ہندو بابا نے جھوٹ موٹ بھی یہ شکایت کی ہوتی تو اکبر جیسا بادشاہ پہلی فرصت میں بابری مسجد ہندوؤں کو سونپ دیتا، لیکن تانسین سے لیکر سورداس تک، مان سنگھ سے لےکر بیربل تک سارے ہندو راجا اور پنڈت خاموش تھے، اس کا مطلب صاف ہے کہ ان کی نگاہ میں ایسا کوئی معاملہ سرے سے تھا ہی نہیں جس کی شکایت وہ اکبر سے کرتے۔ کوئی اور کرتا نہ کرتا لیکن اکبر کی بیوی ہرکھا بائی ضرور اکبر سے یہ کام کراتی کہ جو بیوی اکبر سے گائے کا گوشت چھڑا سکتی تھی وہ اپنے مندر کا مطالبہ کیوں نہیں کر سکتی تھی؟
اکبر ہی کے زمانے میں مشہور ہندو رشی سوامی تلسی داس [1511-1623ء] بھی موجود تھے۔تلسی داس سوروں ضلع کاس گنج کے رہائشی تھے۔تلسی داس ہی نے شری رام چندر کی سوانح عمری (Biography) لکھنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کام کا آغاز تلسی داس نے ایودھیا ہی میں کیا۔سن 1554 عیسوی میں راماین لکھنا شروع کی۔ دو سال سات مہینے چھبیس دن میں یہ کام مکمل ہوا اور 1556 عیسوی میں یہ کام مکمل ہوگیا۔اسی گرنتھ کا نام "رام چرت مانس" ہے اور عوامی طور پر اسے راماین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ راماین سات کانڈ [ابواب] پر مشتمل ہے، لیکن کسی ایک باب میں بھی تلسی داس جیسے رام بھکت نے اس بات کا صراحت تو کیا، اشاروں میں بھی ذکر نہیں کیا کہ بابری مسجد رام جنم استھان اور مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔ جب کہ اس وقت بابری مسجد کو بنے ہوئے 26 سال ہی ہوئے تھے، اگر واقعی مسجد مندر توڑ کر بنی ہوتی تو تلسی داس اس حادثہ کا ذکر اپنی کتاب میں ضرور کرتے۔ چھبیس سال کا زمانہ کوئی بڑا زمانہ نہیں ہوتا کہ لوگ پوری طرح بھول جائیں، خصوصاً ایسے حادثات کو تو لوگ صدیوں تک نہیں بھولتے، تو تلسی داس جیسے رام بھکت گیانی پنڈت سے یہ امید کون کر سکتا ہے کہ وہ اس حادثہ کو بھول گیے ہوں گے یا مغل بادشاہ کے خوف سے چھوڑ دیا ہوگا؟ وہ بھی اکبر جیسا بادشاہ، جو ہندو مذہب کے بہت قریب اور اسلام سے بہت دور تھا۔تلسی داس کا اس اہم معاملے پر کچھ نہ لکھنا ہی اس بات کو صاف کر دیتا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ تاریخ میں ہوا ہی نہیں تھا۔
جس زمانے میں بابری مسجد تعمیر ہوئی اس وقت تلسی داس کی عمر تقریباً 17 سال رہی ہوگی، کیوں کہ تلسی داس 1511 عیسوی میں پیدا ہوئے جب کہ بابری مسجد 1528 عیسوی میں تعمیر ہوئی اس حساب سے تعمیر مسجد کے وقت تلسی داس کی عمر سترہ سال بنتی ہے۔سترہ سال کا لڑکا اتنا ناسمجھ نہیں ہوتا کہ اتنے بڑے حادثے کی اسے خبر ہی نہ ملی ہو۔1554ء میں تلسی داس نے راماین لکھنا شروع کی، اس وقت تلسی داس 43 سال کے پختہ عمر شخص تھے جب کہ بابری مسجد کو بنے ہوئے 26 سال ہوچکے تھے۔اس وقت یقیناً ایودھیا میں ایسے سیکڑوں لوگ موجود رہے ہوں گے جنہوں نے بابری مسجد کو بنتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا، اگر واقعتاً مسجد رام مندر توڑ کر بنی ہوتی تو وہ لوگ تلسی داس سے اس واقعے کا ذکر ضرور کرتے اور تلسی داس اسے راماین میں ضرور لکھتے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے سند رہے، لیکن کسی ہندو نے ایسا کہا نہ تلسی داس نے ایسا لکھا، کیوں کہ ایسا کچھ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔بابری مسجد نہایت دیانت داری کے ساتھ ایک صاف ستھری زمین پر بغیر کسی مندر کو توڑے تعمیر ہوئی جس پر اس عہد کے ہندو پنڈتوں اور ہندو عوام کی خاموش گواہی بھی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے۔
9 رجب المرجب 1445ھ
21 جنوری 2024 بروز اتوار 

 جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی