مقصود ہے ان باتوں سے اصلاح مقاصد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا
یہ بات مسلمۂ حقیقت ہے کہ اچھی صحبت سے برا انسان بھی نیک بن جاتا ہے اور بری صحبت سے اچھا انسان بھی بد بختی کی سمت چلا جاتا ہے. قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ بچہ کی تربیت والدین اگر احسن طریقے سے کرتے ہیں تو وہ بچہ بااخلاق و با کردار نظر آتا ہے اور بلوغیت کے بعد ریاضت و مجاہدہ کے لئے اچھی صحبت اور نیک ہمنشیں پا جانے سے اس کی زیست نکھر جاتی ہے.
اچھی صحبت میں اساتذہ کرام احباب و اقارب اور ایک اہم نام شیخ طریقت کا آتا ہے شیخ مریدین کے خدا رسی کا سبب بنتا ہے.
قدیم دور سے مسلمان پیرانِ عظام کی چوکھٹ پر اصلاح نفس و حصول علم و عمل اور دیگر پاکیزہ اشیاء کی خاطر آمد و رفت کیا کرتے تھے اور ان حضرات کے در سے دینی مفاد حاصل کیا کرتے تھے .
پیر صاحبان کی چھوٹی سی جھوپڑی (خانقاہ ) ہوا کرتی تھی جہاں مریدین کو عبادت و ریاضت کے اسباق سکھائے جاتے تھے کثیر تعداد میں بزرگ ایسے گزرے ہیں کہ پہلے آنے والے کو مجاہدات کی منزلیں طے کرا دیتے پھر اسے حلقۂ آغوش میں لیتے بیعت کرتے اور پھر ایک عرصے کے بعد خلافت و اجازت اور جانشینی کی ڈور ان کے سپرد کرتے جب انہیں اعتماد کامل ہوجاتا کہ بندہ شریعت و طریقت کو اصحح طور پر فروغ دےگا اور لوگوں کو فلاح و بہبودی پر گامزن ہونے میں ان کی مدد کرےگا.
پہلے کے مسلمان دعاؤں میں مرشد کامل کی صحبت مانگا کرتے تھے اور شیخ کامل کی تلاش و جستجو میں آدھی آدھی عمر گزر جاتی تھی .
قبل مرید چند امور کو انجام دیا جاتا تھا.
(١) تمام عصیاں سے توبہ کرنا
(۲) جو نمازیں ترک ہوئیں ان کی قضا
(٣) لوگوں کے حقوق کی ادائیگی وغیرہم
اور بیعت کے بعد کچھ) بنیادی باتوں کا خیال کیا جاتا تھا
(١) مرید کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نا آنے پائے کہ اس کا شیخ روز قیامت اس کی شفاعت کا ذمہ دار ہوگا
(۲) مرید یہ بھی نا سوچے کہ اس کا پیر اس کے تمام گناہوں کو معاف کرادے گا
(٣) یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ اللہ کا ولی ایک نظر میں طالب کو باکمال بنا سکتا ہے لیکن اس امید پر احکام شرعیہ سے غفلت برتنا گمراہی کی علامت ہے
(۴) پیر کامل جو اذکار و ادعیہ نیز اشغال کی تعلیم دے ان تعلیمات کو بھر پور کوشش سے انجام دینا
(۵) شیخ سے محبت کرنا محبت کی علامت محبوب کی فرمانبرداری کرنا ہے اور پوری زندگی ڈرتے رہنا کہ محبوب کہیں خفا نا ہوجائے. قارئین یہ وہ چیزیں تھیں جن پر قدیم زمانے کے مسلمان عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی کے مقاصد کو حاصل کر لیا کرتے تھے.
موجودہ دور میں بیعت و ارادت میں اس کے برعکس سا مشاہدہ کیا جا رہا ہے لوگ پیران عظام کی بارگاہ میں مادیت پرستی دنیاوی غرض کے لیے حاضری دیتے ہیں برائے دینی مقاصد شاذ و نادر . اچھا فی زمانہ اکثریت میں پیر حضرات ایسے پائے جا رہے ہیں کہ جنہیں اپنی ہی زیست کے حوالے سے ناواقفیت ہے کہ ہمارا وجود کس لئے ہے ہم کیوں پیدا کئے گئے ہیں دن رات گناہوں میں ملبوس رہتے ہیں اور لوگوں کے روبرو اپنے آپ کو شیخ کامل ثابت کرتے ہیں صرف اور صرف دنیوی مقاصد مال و زر سستی شہرت کی خاطر نا ان میں وہ شرائط نظر آتے ہیں جو شریعت نے بیان کیا ہے مثلاً مسلمان سنی صحیح العقیدہ ہونا اس قدر عالم ہونا کہ اپنی حاجات کے مسائل بغیر کسے کے مدد کے کتب اسلامیہ سے اخذ کرسکے علانیہ فسق نا کرنا سلسلہ کا نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم تک متصل ہونا.
جہالت یا اندھی عقیدت کی بنیاد پر لوگ سمجھ نہیں پاتے ہیں ان لوگوں نے پیری مریدی کو ذریعۂ معاش بنا لیا ہے اپنے مفاد کے لئے پیر مریدین کا جم غفیر تیار کر لیتا ہے اور خوب اچھے طور سے ان کے مال و متاع کا صفایا کرتا ہے. یہ کارِ شر ہند و پاک میں تیزی کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے روزانہ کئی کلپس شوشل میڈیا پر نظر آتی ہے کہ لوٹنے والے جعلی پیر صاحبان لوگوں کو اپنی اندھی عقیدت میں پھنسا کر ان کے ایمان و اعمال ضائع کرنے کی ناپاک کوششیں کر رہے ہیں اس نام نہاد جماعت کے کچھ افراد تو حد سے تجاوز کرتے ہیں کہتے ہیں ہم طریقت والے ہیں شریعت کے احکام ہم پر نہیں (معاذ اللہ) نمازیں ترک کرتے ہیں روزہ نہیں رکھتے زکوٰۃ ادا نہیں کرتے نیز احکام شریعت میں مداخلت کرتے ہیں مثلاً سجدۂ تعظیمی اور محفل سماع نیز مزامیر قوالی وغیرہم کو جائز بلکہ کھلم کھلا ان کاموں کو گاہے بگاہے کرتے اور کرواتے ہوئے نظر آتے ہیں .یہ جہلا پیران کی ہلکی سی جھلک تھی.
اب بعض علم دین سے آشنا رہنے نیز شریعت پر عمل پیرا ہونے والے پیر حضرات کی جانب بھی اک نظر ہو اس گروہ کے افراد کثیر تعداد میں نیک کاموں کو فروغ دیتے ہیں دین کی ترویج و اشاعت کرتے ہیں مگر کچھ امور میں ماتھ کھا جاتے ہیں اپنے نظریات کے مطابق انجام دینے میں مثلاً فروعی مسائل میں اختلاف کی بنا پر سامنے والی جماعت سے قطع تعلق اور ان کا بائیکاٹ کرنا گروپ بندی کرنا علاوہ ازیں نااہلوں کو محض اپنی جانب گامزن کرنے کیلئے خلافت و اجازت کی ڈور تھما دینا وغیرہ وغیرہ.
محترم قارئین آپ حضرات ان سطور سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پہلے زمانے کی پیری مریدی کیسے تھی اور فی الوقت کیسی ہے
نوٹ... مخلص پیر کی تلاش و جستجو آج کے دور میں بھی ہونی چاہئے جن حضرات میں سنت نبوی کی جھلک دکھے نیز عالم دین ہو تو اس شخص کے دامن کو تھاما جائے اور ایسے حضرات راقم کے نظریہ کے مطابق خانقاہ کے مقابل درسگاہ میں زیادہ ملیں گے .
اندھی عقیدت سے اعراس کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اگر کوئی شخص شریعت سے آگے کی بات کرتا ہے اسے دل سے خارج کر دیا جائے چاہے وہ کتنا بڑا عالم ہو پیر یا شہرت یافتہ بد بخت ہو جیسا ہم نے کچھ سال قبل ڈاکٹر طاہر القادری کا خارجہ اپنے دل و دماغ سے کیا تھا؛؛
اللہ تبارک و تعالیٰ ان چند باتوں پر پہلے پہل مجھ فقیر کو پھر تمام مسلمانوں عمل کی توفیق دے (آمین بجاہ سید المرسلین)
راقم التحریر؛ عارف ابن عبداللہ
متعلم جامعہ حنفیہ سنیہ مالیگاؤں مہاراشٹر بھارت
0 تبصرے