السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر ہمارے پاس زید نے پیسہ جمع کیا ہو تو کیا اس کو ہمیں وہی نوٹ یا وہی کرنسی دینا ہوگا یا پھر ہم اگر اسے خرچ کر دیں اور اتنا پیسہ اس کو ہم دے دیں تو کیا جائز ہے؟
سائلہ؛ بنت رئیس
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک والوہاب
امانت کے طور پہ جو رقم جس حال میں دیا جائے امین کی ذمہداری ہے کہ اس امانت کو بغیر تردد کے اسی حال میں واپس کرے، ہاں اگر دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ اسے اپنے امانت میں رکھیں اور کوئی ضرورت پیش آئے تو خرچ کر سکتے ہیں مگر جب مجھے ضرورت ہو تو مجھے چاہئے تو اب یہ ضروری نہیں کہ وہی مال لوٹایا جائے،
جیسا کہ امام اہلسنت فقیہ باکمال امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
ومعلوم ان الاثمان لاسیما الاصطلاحیۃ وان لم تتعین فی العقود متعینۃ فی الملك قطعا فلیس للمودع ان یبدل دراہم الودیعۃ بدراہم من عندہ فعود ماملك کما خرج ثابت قطعا وعلیہ تدور رحی المنع کما علمت،(ملخصًا)
اور یہ معلوم ہے کہ ثمن خصوصا اصطلاحی ثمن اگر چہ عقود میں متعین نہیں ہوتے مگر ملك میں قطعی طور پر متعین ہوتے ہیں:
لہذا جس کے پاس امانت کے طور پر درہم رکھے گئے ہوں وہ ان کو اپنے پاس سے دوسرے درہموں سے بدل نہیں سکتا چنانچہ مملوك کا لوٹ کر آنا جیسا کہ وہ ملک سے خارج ہوا تھا قطعی طور پر ثابت ہوگیا اور ممانعت کی چکی اس پر گھومتی ہے جیسا کہ تو جان چکا ہے،
فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد (۱۷) ص (۶۲۵) مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور
واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم و علمه أتم و أحكم
کتبہ؛محمد راشد مکی صاحب
گرام ملک پور ضلع کٹیہار بہار ہند
0 تبصرے