چاند و سورج وغیرہ آسمان کے نیچے ہیں.
حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ فلک چہارم میں میں یہ لوگ سوچ کو مانتے ہیں سطح زمین سے چار ہزار برس کی راہ ہے۔ اور حکما اور علما کایہ امر ہے کہ سورج سطح زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل ہے۔ تو ثابت ہوگیا کہ چار ہزار برس کی راہ میلوں سے نو کروڑ تیس لاکھ میں ہوئی ۔ اسے جب آٹھ پرتقسیم کئے۔ ۱۱۶۲۵۰۰۰ ہوئے اس سے واضح ہوگیا کہ آسمان اول کا مقصد زیر سطح زمین سے ۱۱۶۳۵۰۰۰ 
 میل ہے۔ اس کے باوجود کہ چاند کا فاصلہ زمین سے گھٹتا بڑھتا ہے۔ 
مگر ڈھائی لاکھ میل سے زائد کبھی نہیں ہوتا ۔ اب ثابت ہو گیا کہ چاند آسمان اول میں نہیں بلکہ اس سے ۱۱۳۷۵۰۰۰ میل نیچے ہے ۔
اسی طرح اگر چاند کو آسمان اول میں مانیں (جیسا کہ چاند و سورج کو آسمان میں ماننے والوں کا اجماع ہے ) تو یہ لازم آئے گا کہ سورج آسمان میں نہ ہو بلکہ ساتویں آسمان کے اوپر کہیں اور ہو۔ کیونکہ جب چاند کو آسمان اول میں مانیں گے اور چاند زمین سے ڈھائی لاکھ میل سے زائد کی دوری پر نہیں۔ تو اس کا حاصل یہ ہوا کہ زمین سے پہلے آسمان کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ ڈھائی لاکھ میل ہے۔ 
 اور جب ان حضرات کو یہ بھی مسلّم ہے کہ زمین و آسمان کے مابین جتا فاصلہ ہے اتنا ہی ہر آسمان کا دَل اور دو آسمانوں کے مابین کا فاصلہ بھی ہے تو اس نے لازم آیا کہ ہر آسمان کا دل اور درمیانی فاصلہ مل کر کل پانچ لاکھ میں ہوا، اس طرح لازم کہ سورج ساتویں آسمان کے اوپر کہیں اور ہو۔ اور یہ بھی ان کے مسلمات کے خلاف ہے۔
غرض کہ زمین سے چاند و سورج کا جو فاصلہ ہے وہ اس پر دلیل قاطع ہے کہ نہ چاند آسمان میں ہے نہ سورج، اگر ان میں سے ایک کو آسمان میں مانتے ہیں تو دوسرے کا آسمان کے نیچے یا آسمان کے اوپر ہونا لازم آتا ہے اس لئے یہ مانا پڑے گا کہ نہ چاند آسمان میں ہے نہ سورج بلکہ دونوںآسمان کے نیچے ہیں؛ 
جیسا کہ جمہور مفسرین فرماتے ہیں۔ رہ گئے ستارے تو ان کے بارے میں خود سید المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ”ان النجوم قناديل معلقة بين السماء والارض بسلاسل من نور بايدى الملٰئكة” ترجمہ؛ ستار کے زمین و آسمان کے درمیان فرشتوں کے ہاتھوں میں نورانی زنجیروں سے شکی ہوئی قند میں ہیں ۔ (سراج منیر ص ۴۹۰ ج ۴ تفسیر ابوالسعود ص۴۰۹ ج ۸)
اس نص صریح کے ہوتے ہوئے اب اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا مذہب یہ ہے کہ ستارے آسمانوں میں ہیں اس لئے جمہور مفسرین کا یہ قول کہ آیۂ مذکورہ میں فلک سے مراد آسمان کے نیچے کی فضا ہے۔ راجح ہے۔ 
جب جمہور مفسرین کے قول مختار کے بنا پر چاند آسمان میں نہیں آسمان کے نیچے ہے۔ تو چاند پر کسی بھی انسان کا خواہ وہ کافر ہو خواہ مسلمان خلائی کشتی یا کسی اور مناسب چیز کے ذریعہ پہنچنا شرعاً ممکن اس میں کسی قسم کا کوئی شرعی استحالہ یا قباحت نہیں۔
علما تصریح فرماتے ہیں کہ اہل ہیئت جو انہیں اگر شرع کے مخالف نہ ہو تو اس کے ماننے میں کوئی حرج نہیں۔
علامہ صاوی فرماتے ہیں، ” والاعتقاد ما قاله اهل الهيئة لا يضرولس في الشرع ما يخالفه ” اہل ہیئت کی یہ بات مضر نہیں اور شریعت میں اس کے مخالف کوئی بات نہیں۔ 
 شرح مواقف میں دوائر عشرہ کے بارے میں ہے۔ ”لا حجر من جهة الشرع في مثلها” ان جیسی باتوں میں شریعت کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ۔ (ص۴۷۸)
اس لیے اگر کوئی کہے کی امریکن خلا پازاپالو کے ذریعہ یا روس کی خلائی کشتی لونا چاند پر پہنچ گئی تو اسکی نہ تو تکفیر جائز ہے نہ تضلیل اور نہ تجہیل اہل علم کا کام ہے 
(ماخذ، اسلام اور چاند کا سفر، صفحہ ۷۲)
(تصنیف؛ حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ) واللہ اعلم 
کتبہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی