السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ اذان یا تکبیر میں"اللّٰهُ اَکْبَرُ ﷲُ اَکْبَر" ہے اس اول"ر" کو کیسے پڑھا جائے؟ "اَکْبَرُﷲ" پڑھا جائے یا اَکْبَرْ اَللّٰه"پڑھا جائے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں؛ 
سائل، محمد عبد اللہ قادری جھارکھنڈ انڈیا 

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب ،
سنت یہ ہے کہ اذان یا اقامت میں پہلے اللہ اکبر کی" را" کو ساکن پڑھا جائے، یا وقف کی نیت سے "را" کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے، را کو زبر کے ساتھ اس وقت پڑھا جائے گا جب اس"را" کو دوسرے اللہ اکبر کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے ،ملانے کی صورت میں "را" کو پیش کے ساتھ پڑھنا سنت کے خلاف ہے، 
ردالمحتار میں علامہ ابن عابدين شامی علیہ الرحمہ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں؛ "وحاصلھا ان السنۃ ان یسکن الراء من" اللہ اکبر " الاول، او یصلھا ب" اللہ اکبر " الثانیۃ، فان سکنھا کفی وان وصلھا نوی السکون فحرک الراء بالفتحۃ، فان ضمھا خالف السنۃ، لان طلب الوقف علی اکبر الاول صیرہ کالساکن اصالۃ فحرک بالفتح" اور اس کا حاصل یہ ہے کہ سنت یہ ہے کہ پہلے اللہ اکبر کی را کو ساکن کرے، یا اسے دوسرے اللہ اکبر کے ساتھ ملائے، اگر را کو ساکن پڑھا تو کافی ہے، اور اگر ملایا اور سکون کی نیت کی تو را کو زبر کی حرکت دے، اگر را پر پیش پڑھا تو اس نے سنت کے خلاف کیا، پہلے اکبر پر وقف کے مطلوب ہونے نے اسے اصالۃ ساکن کی طرح کر دیا ہے پس اس را کو فتح کی حرکت دی جائے گی، 
(ردالمحتار کتاب الصلاۃ باب الاذان،مطلب فی الکلام علی حدیث الاذان جزم،جلد ١ صفحہ ٣٨٦، دار الفکر بیروت).
 والله تعالى اعلم بالحق والصواب 
کتبہ؛ محمد اقبال رضا خان مصباحی 
سنی سینٹر بھنڈار شاہ مسجد پونہ وجامعہ قادریہ کونڈوا پونہ
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰،ذوالقعدۃ الحرام ١٤٤٤ھ / ٣١،مئی ٢٠٢٣ء بروز بدھ
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔