محرم، صفر، ربیع الاول۔ یہ تین اسلامی مہینے ایسے ہیں جس میں لوگوں کو مرچی لگا کرتی ہے کیسے اور کن لوگوں کو نیچے ملاحظہ فرمائیں؛ــــ⇓⇓ 
اول محرم: محرم شریف کا مہینہ آتا ہے تو رافضیوں(شیعوں) کو مرچی لگتی ہے اور وہ صحابہ کرام خصوصاً امیر معاویہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعن طعن کر کے خود کو مستحق نار کرتے ہیں۔ 
کچھ خارجیوں کو درد اٹھتا ہے یزید پلید کی محبت کا اور اہل بیت سے بغض کا ۔ اہل بیت سےمحبت کے لیے تو سند سند کی چیخ لگاتے ہیں اور یزید سے محبت کےلیے سند اور ضعیف سب بھول جاتا ہے۔ خیر۔ ایسوں کواللہ یزید کے ساتھ ہی حشر عطا فرمائے۔ آمین۔ 
دوم صفر: یہ مہینہ اہل سنت وجماعت میں امام اہل سنت سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس مہینے میں اس زمانے کے میر جعفروں کو مرچی لگ جایا کرتی ہے۔اور اس مرچی کے لگنے کے بعد وہ تلملا کر امام اہل سنت پر ، ان کے نام سے منسوب مسلک یعنی مسلک اعلیٰ حضرت پر اور امام کے نام سے ملی پہچان پر تنقید کرنے میں شدت اختیار کر نے لگتےہیں۔ مثلاً : مبین اشرف، ناصر رامپوری مصباحی، عباس ازہری، نوشاد عالم چشتی و ان کے معاونین و مددگار جو ان کی پوسٹ پر کمنٹس میں موجود ہوتے ہیں اور کھسیانی بلی بن کر کھمبا نوچنے کی مشق کر رہے ہوتے ہیں۔ 
کیوں کہ ان موجودہ زمانے کے میر جعفروں کی اتنی حیثیت تو ہے نہیں کہ علم اعلیٰ حضرت یا تصنیف اعلیٰ حضرت پر تنقید کرنے کی جرات کریں اس لیے خاندان اعلیٰ حضرت پر انگلی اٹھا کرحسرت پوری کیا کرتے ہیں۔ اور خاندانی اختلافات کو بھی یوں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جیسے اس فن میں پی ایچ ڈی ہوں۔ 
ارے ہاں۔ یہ لوگ اس زمانے کے مستند عالم یعنی میرے شیخ سے سب سے زیادہ جلتے ہیں۔ پتہ ہے کیوں؟ 
کیوں کہ ان کی دال نہیں گلتی۔ مقبولیت نہیں مل پا رہی ۔ ہر طرف تاج الشریعہ کی چھاپ دیکھ دیکھ کر دل میں درد تو اٹھے گا ہی نا۔ایسے فتنہ بازوں کو من مانی کرنے نہیں ملتی شریعت میں ناں۔ جہاں اپنی مرضی کا قانون نکالا شریعت میں ،جھٹ سے بریلی شریف سے گرفت کر دی جاتی ہے۔ اور اس گرفت کی وجہ سے ان کے گلے میں ایسا پھندہ لگتا ہے کہ تلملا تلملا کر کاغذ کو سیاہ کرتےرہتے ہیں ۔ 
ویسے میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ امام اعظم جیسے فقیہہ کو جیل کیوں جانا پڑا تھا، امام احمد بن حنبل جیسے مجتہد کو کوڑے کیوں لگائے گئے تھے، امام بخاری جیسے محدث کو غریب الوطن کیوں ہونا پڑا تھا۔ وہ کون لو گ تھے جن کی سازش کی وجہ سے ایسے علمائے کرام بھی اپنے وقت میں مشکلیں برداشت کرتے رہے۔ 
تو آج کا زمانہ دیکھ کر اور ان فتنہ بازوں کوعلمائے حق کے پیچھے پڑا دیکھ کر او ر سازشیں کرتا دیکھ کر جواب مل جاتا ہے کہ ان کے آباء واجدا د ہی تھے وہ لوگ جو ہر زمانے میں علمائے حق کے پیچھے اسی طرح سازشیں کرتے اور بدزبانی کرتے پائے گئے ہیں۔اسی طرح لوگوں کو بھڑکاتے تھے۔اسی طرح علمائے کرام کے خلاف زہر اگلتے تھے جیسے آج یہ لوگ اگلتے ہیں۔ 
ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ کبھی کسی علمی گرفت کو پیش کرتے نہیں پائے گئے۔ کیوں کہ اوقات ہی نہیں ہے۔ اس لیے ذاتیات پر ہی طنز کرتے رہے ۔ اورنام کے ساتھ القابات تو دیکھو۔ نعیمی، مصباحی، ازہری، چشتی وغیرہ وغیرہ۔ لوگ پڑھ کر سوچیں بندہ علم والا ہوگا۔ مگر یہ تو ماہر ذاتیات نکلے۔(خیر) 
سوم ربیع الاول: اس مہینے میں مرچی لگتی ہے شرک کی تسبیح پڑھنے والوں کو۔ یعنی اولاد ابلیس کو۔ نہیں سمجھے؟ اففففف وہابی، دیوبندی، اہل خبیث، نجدیوں کو۔ ان سارے اہل مرچ یعنی مرچی زدہ افراد کو اگر جلن ہوتی ہے تو ہم کیا کریں۔
اب ان کی وجہ سے ہم چرچا کرنا اور جشن منانا تو نہیں چھوڑیں گے ناں۔ 
بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ اور مرچی لگے۔ اس لیے اور شدت سے چرچا کرتے ہیں اور جشن مناتے ہیں۔ 
جلنے والوں جلو، جل جل کر مرو اور مر کر مٹی ہو جاؤ۔ مگر ہم تو حشر تک ایسے ہی دھومیں مچانے والے ہیں ۔ 
کیا خوب دعا کی اعلیٰ حضرت نے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!! 
کردو عدو کو تباہ، حاسدوں کو رو بہ راہ 
اہل وِلا کا بھلا تم پہ کروڑوں درود 

نوٹ : بدتمیزی نہیں کرنا کوئی، خبردار ! (اہل مرچ کے مددگاروں کو کہا ہے)۔ 
ورنہ دفع کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگاؤں گا۔ 
یہ تحریر ان اہل مرچ لگنے والوں کو پہنچا سکتاہے کوئی تو پہنچا دیں، شکریہ 
طالب دعا؛ محمد عارف رضوی قادری