نام و نسب:
اسمِ گرامی: عبد اللہ:
کینیت؛ ابوبکر۔
لقب: دو زیادہ مشہور ہیں صدیق اور عتیق۔
سلسلۂ نسب اسطرح ہے: عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب۔ حضرت کعب پر جا کر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ رسولِ اکرم ﷺ کے نسب سے جا ملتا ہے۔ آپکی والدہ کا نام ام الخیر سلمیٰ بنت ِ صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔
قبولِ اسلام: حضرت سیدنا ابراہیم نخعی فرماتے ہیں!
"اوّل من اسلم ابوبکر الصّدّیق" یعنی سب سے پہلے اسلام قبول کرنیوالے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
(سنن الترمذی ،رقم الحدیث،۳۷۵۶)
فضائل و مناقب:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے !
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثْنَیۡنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ۔
ترجمہ کنزالایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بے شک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے باہر تشريف لے جانا ہوا صر ف دو جان سے جب وہ دونوں غار ميں تھے جب اپنے يار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکينہ اتارا۔
(پ۱۰، التوبۃ:۴۰)
اس آیت مبارکہ سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔
ايک يہ کہ حضرت ابوبکر صديق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابيت قطعی بحکمِ قرآنی ہے لہٰذا اس کا انکار کفر ہے۔
»دوسرا يہ کہ حضرت صديق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ حضورﷺ کے بعد سب سے بڑا ہے کہ انہيں اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کا ثانی فرمايا۔ اس لئے حضور ﷺ نے انہيں اپنے مصلےٰ پر امام بنايا۔
»يہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے بعد خلافت صديق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ہے۔ رب تعالیٰ انہيں دوسرا بنا چکا پھر انہيں تيسرا يا چوتھا کرنے والا کون ہے۔ وہ تو قبر ميں بھی دوسرے ہيں حشر ميں بھی دوسرے ہوں گے۔
یعنی اُس اَفضلُ الْخَلْقِ بَعْدَ الرُّسُل
ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہِجرت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا!"مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت انہیں عطا فرمائیگا۔
(سنن الترمذی، رقم الحدیث ،۳۶۸۱)
خلافتِ صدیق اکبر:
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی للہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہےکہ اللہ کے حبیب ﷺ نے مرضِ وفات میں مجھے ارشاد فرمایا!
"ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلا لاؤ تاکہ میں انہیں پروانہ (خلافت) لکھ دوں ،مجھے خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنیوالا اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے یہ نہ کہہ دے کہ میں زیادہ حقدار ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور مسلمان ابوبکر کے علاوہ کسی سے راضی نہ ہونگے۔
(صحیح مسلم،رقم ا لحدیث،۲۳۸۷)
سیدنا جبیر بن مطعم سے روایت ہے !کہ ایک عورت اپنی کسی حاجت کی وجہ سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے اسے دوبارہ آنے کا حکم ارشاد فرمایا، وہ کہنے لگی:
یا رسول اللہ ﷺ اگر میں دوبارہ آؤں اور آپکو نہ پاؤں تو؟
"
گویا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کا ذکر کر رہی تھی۔
سرور ِ عالمَﷺنے ارشاد فرمایا!اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس چلی جانا ۔
(صحیح البخاری،رقم الحدیث،۳۶۵۹)
افضلیتِ صدیق اکبر:
امام بخاری رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ حضرت محمد بن حنفیہ صاحبزاده جناب امیر المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راویت فرماتے ہیں:
قال: قلت لأبي: أيّ الناس خیرٌ بعد النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم؟ قال: أبو بکر، قال: قلت: ثم من؟ قال: عمر)۔
یعنی میں نے اپنے والد ماجد امیر المومنین مولیٰ علی کرم ﷲ وجہہ سے عرض کیا: کہ رسول ﷺکے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: "ابو بکر، میں نے عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا: عمر"
(صحیح البخاري، رقم الحدیث،۳۶۷۱)
اہلسنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ بعد انبیاء و مرسلین، تمام مخلوقتِ الہی انس و جن و ملک سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں پھر حضرت فاروق ِاعظم پھر حضرت عثمان غنی ، پھر حضرت مولیٰ علی۔
(رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
(بہارِ شریعت ،ج، اول، امامت کا بیان،ص،۲۴۱)
شیخین کی خلافت کا منکر کافر ہے:
شیخین کریمین کی خلافت پر صحابہ ٔکرام کا اجماع ہے لہذا انکی خلافت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
(بہارِ شریعت،ج، اول، امامت کا بیان،ص،۲۵۳)
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت، مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
وجیزامام کردری مطبوعہ مصر جلد ۳ ص ۳۱۸ میں ہے۔
"من انکرخلا فۃ ابی بکررضی ﷲ تعالٰی عنہ فھو کافرفی الصحیح ومن انکر خلافۃ عمر رضی اللہ تعالی عنہ فھو کافر فی الاصح۔
خلافتِ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر کافر ہے، یہی صحیح ہے، اور خلافتِ عمر فاروق رضی اللہ رتعالٰی عنہ کا منکر بھی کافر ہے، یہی صحیح تر ہے"۔
(فتاویٰ رضویہ، ج، ۱۴،ص،۲۵۱)
وصال: ۲۲جمادی الثانی۱۳ھ مطابق۲۳/اگست ۶۳۴ء بروز پیر، مغرب و عشاء کے درمیان تریسٹھ سال کی عمر میں آپکا وصال ہوا۔ آپ کی مدت خلافت دو سال ،تین ماہ اور دس دن تھی۔
بوقت وصال حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ رتعالٰی عنہ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کو میرے حبیبِﷺ کے روضۂ اَنور کے دَر کے سامنے لاکر رکھ دینا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کہہ کر عرض کرنا! "یارسولَ اللہﷺ ابو بکر آستانۂ عالیہ پر حاضِر ہے۔ اگر دروازہ خود بخود کھل جائے تو اندر لے جانا ورنہ مسلمانوں کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کر دینا۔ جنازۂ مبارکہ کو حسبِ وَصیت جب روضۂ اَقدس کے سامنے رکھا گیا اور عرض کیا گیا: اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ! ابوبکر حاضِر ہے۔ یہ عرض کرتے ہی دروازہ خود بخود کھل گیا اور آواز آنے لگی:
"اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ فَاِنَّ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ مُشْتَاقٌ"
یعنی محبوب کو محبوب سے مِلادو کہ محبوب کو محبوب کا اِشتِیاق ہے۔
(تفسیر کبیر ج۱۰ص۱۶۷ داراحیاء التراث العربی بیروت)
جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری
0 تبصرے