السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسلہ میں کہ زید زندہ ہے اور اپنے لئے دسواں بیسواں اور چالیسواں کرواتا ہے کیا اس کا ایسا کرنا درست ہے؟ 
سائلہ؛ کنیز تاج الشریعہ فرام راجستھان 

علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب 
دسواں بیسواں اور چالیسواں کی فاتحہ خوانی بطور ایصال ثواب زندہ کیلئے یہ درست نہیں جب دنیا سے ہی نہیں گیا تو یہ اس کو کیسے معلوم یہ دسواں کی فاتحہ ہے یا چالیسویں کی اسی لیے نام سے ایصال ثواب فاتحہ خوانی درست نہیں زندہ کیلئے کہ یہ میری چالیسویں یا بیسویں کی فاتحہ ہیں البتہ زندہ کیلئے ایصال ثواب درست ہے. 
زندہ آدمی کے لئے کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا اور اس کے لئے دعاۓ مغفرت کرنا درست و جائز ہے ۔ 
 جیسا کہ حضور فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد الامجدی برکاتی علیہ الرحمۃ والرضوان علامہ مفتی انوار احمد قادری الامجدی زیدہ شرفہ اللہ تکریمہ تحریر فرماتے ہیں ،، ہاں اپنے اعمال نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ وغیرہ ہر قسم کی نیکیوں کا ثواب زندہ اور مردہ دونوں کو بخشنا جائزہے ۔ 
 بحوالہ فتاوی عالمگیری جلداول مصری صفحہ ٢٤٠ کے تحریر فرماتے ہیں ؛ " أَنَّ الْإِنْسَانَ لَهُ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا كَالْحَجِّ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَالْأَذْكَارِ وَزِيَارَةِ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وَالشُّهَدَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَتَكْفِينِ الْمَوْتَى وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ، كَذَا فِي غَايَةِ السُّرُوجِيِّ شَرْحِ الْهِدَايَةِ " یعنی اپنے عمل نماز روزہ زکوٰۃ حج قراءت قرآن واذکار کا ثواب اور انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰة والسلام شہدائے اسلام اولیاۓ کرام وبزرگان دین کی قبروں کی زیارت کا ثواب اور مردوں کی تجہیر وتکفین وغیره ہر قسم کی نیکیوں کا ثواب دوسرے کو بخشنا جائز ہے ۔ 
 اور بحرالرائق جلد سوم صفحہ ٥٩ میں ہے ،، من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع، ثم قال: وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا. والظاهر أنه لا فرق بين أن ينوي به عند الفعل للغير أو يفعله لنفسه ثم بعد ذلك يجعل ثوابه لغيره، لإطلاق كلامهم، وأنه لا فرق بين الفرض والنفل. اھ؛ یعنی مردہ اور زندہ کو ثواب بخشنے میں کوئی فرق نہیں ۔ (فتاوی فیض الرسول جلددوم صفحہ ٦٧٩)
 وھو سبحانہ تعالٰی اعلم بالصواب 

جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی