السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
سوال یہ ہے کہ گرمی میں استنجا کا کیا طریقہ ہے اور ٹھنڈی میں کیا ہے ذرا اسکی وضاحت کردیں، 
ساٸل؛ غلام غوث قادری DBG

وعليكم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ 
الجواب بعون المك الوهاب 
سوال میں گرمی اور سردی کے موسم میں استنجے کے طریقہ کی جو وضاحت طلب کی گئی ہے اسکا تعلق ڈھیلوں سے استنجا کرنے سے ہے جسکی مختصر وضاحت یہ ہے؛ 
حضورِ صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی نادر و مشہور زمانہ کتاب بہار شریعت حصہ دوم میں استنجے کے بیان میں فرماتے ہیں؛ آگے یاپیچھے سے جب نجاست نکلے تو ڈھیلوں سے استنجا کرنا سنت ہے، اور اگر صرف پانی سے ہی طہارت کرلی تو بھی جائز ہے مگر مستحب یہ ہیکہ ڈھیلے لینے کے بعد پانی سے طہارت کرے۔ 
اور ڈھیلوں کی کوئی تعداد معین سنت نہیں بلکہ جتنے سے صفائی ہوجائے ، تو اگر ایک سے صفائی ہوگئی سنت ادا ہوگئی، اور اگر تین ڈھیلے لیے صفائی نہ ہوئی سنت ادا نہ ہوئی۔ البتہ مستحب یہ ہیکہ ڈھیلے طاق ہوں اور کم سے کم تین ہوں،اور اگر ایک یادو سے صفائی ہوگئی تو تین کی گنتی پوری کرے اور اگر چار سے صفائی ہو تو ایک اور لے کہ طاق ہوجائیں؛ اسی میں ہے؛ پاخانہ کے بعد مرد کیلئے ڈھیلوں کے استعمال کا مستحب طریقہ یہ ہیکہ گرمی کے موسم میں پہلا ڈھیلا آگے سے پیچھے کو لےجائے اور دوسرا پیچھے سے آگے کی طرف، اور تیسرا آگے سے پیچھے کو، اور جاڑوں میں پہلا ڈھیلا پیچھے سے آگے کو، اور دوسرا آگے سے پیچھے کو، اور تیسرا پیچھے سے اگے کو لیجائے؛ 
(فتاویٰ ہندیہ کتاب الطھارۃ، الباب السابع فی النجاسہ واحکامھا الفصل الثالث ج ١ ص ٤٨)
اور عورت ہر زمانے میں اسی طرح ڈھیلے لے جیسے مرد گر میوں میں۔ 
(نور الایضاح کتاب الطھارۃ فصل فی الاستنجاء صفحہ١٠)
انتباہ؛ گرمی و سردی میں ڈھیلوں کا مذکورہ بالا طریقہ صرف مستحب ہے واجب و مقید نہیں۔ 
در مختار کتاب الطھارۃ فصل الاستنجا میں ہے "ولا یتقید باقبال وادبار شتاء وصیفا" تو اگر کسی نے اسکے خلاف بھی ڈھیلوں کا استعمال کیا تو بلاشبہ استنجا صحیح ہوگا کہ اصل مقصود صفائی ہے 
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

کتبہ؛ ابو فرحان مشتاق احمد رضوی 
جامعہ رضویہ فیض القرآن سلیم پور نزد کلیر شریف ہردوار اتراکھنڈ