سردی و گرمی موسم کی مدلل و مفصل حقیقت کیا ہے آئیے جانتے ہیں شریعت کی روشنی میں، 
جیسے ہم ذرا اس بات کا صرف تصور کریں کہ اگر ہمیشہ ایک ہی موسم اور ایک ہی درجۂ حرارت و برودت رہے تو اس دنیا میں انتشار برپا ہوجائے بد مزگی اور بے رنگی پیدا ہو جائے ، وقت گزرنے کا احساس ختم ہو جائے اور رنج کی کیفیت کبھی راحت میں بدلنے نہ پائے۔ غور کیا جائے تو سال کے ان چاروں موسموں میں بندہ مؤمن کے لئے اس کے ایمان و اعمال ، رہن سہن ، چال ڈھال اور تبدیلی و انقلاب سے متعلق سبق آموزی کے ایسے مظاہر موجود ہیں، جن میں غور و خوض کرکے وہ دنیا اور آخرت سنوار سکتا ہے، 
البتہ اکثر لوگ ان چیزوں سے ناواقفیت کی بناء پر بغیر عبرت و موعظت کے ہر موسم یوں ہی سرسری گزار دیتے ہیں،
سردی کی شدت کاسبب: موسموں کے بعض ظاہری اسباب ہوتے ہیں جنہیں ہر ذی شعور بندہ جان سکتا ہے لیکن شریعت نے سخت گرمی اور سردی کا ایک سبب یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ موسم سرما میں شدت کی سردی اور موسم گرما میں شدت کی گرمی جہنم کی سانس کی وجہ سے ہے ، 
چنانچہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں "قالتِ النَّارُ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأْذَنْ لي أَتَنَفَّسْ، فَأْذِنَ لَهَا بنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ في الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ في الصَّيْفِ، فَما وَجَدْتُمْ مِن بَرْدٍ، أَوْ زَمْهَرِيرٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ، وَما وَجَدْتُمْ مِن حَرٍّ، أَوْ حَرُورٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ" ترجمہ؛ جہنم نے اللہ تعالی کے حضور شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے رب ! میرا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے، لہذا مجھے سانس لینے کی اجازت مرحمت فرمائیے ، چنانچہ اللہ تعالی نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دیدی ، ایک سانس سردی میں اور دوسری گرمی میں ، پس تم لوگ جو سردی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہو تو وہ جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے اور جو گرمی کی محسوس کرتے ہو وہ بھی جہنم کی سانس لینے کی وجہ سے ہے؛ 
(صحیح البخاری، رقم الحدیث ۳۲۶۰/ مطبوعہ دار طوق النجاۃ) 
حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خیال رہے کہ فلاسفہ کے نزدیک گرمی آفتاب کے قرب سے آتی ہے مگر آفتاب میں گرمی دوزخ سے آئی ۔ ہوسکتا ہے کہ گرمی آفتاب سے بھی ہو اور دوزخ کی بھڑک کی توجہ سے ، اگرچہ گرمیوں کے موسم میں بعض پہاڑوں اور بعض مقامات پر ٹھنڈک رہتی ہے لیکن یہ اس کے خلاف نہیں جیسے سورج کی گرمی ایک ہے لیکن اس کے اثر کا ظہور زمین پر مختلف، کہیں سردی، کہیں گرمی، ایسے ہی ادھر بھی ہے کہ بھڑک کی توجہ جہاں زیادہ ہے وہاں گرمی، جہاں کم ہے وہاں سردی، 
 آپ مزید لکھتے ہیں؛ دوزخ جب اوپر کو سانس لیتا ہے تو دنیا میں عموما سردی کا زور ہو تا ہے اور جب نیچے کو سانس چھوڑتا ہے تو عموما گرمی کی شدت۔ خیال رہے کہ یہ حدیث بالکل ظاہری معنی پر ہے کسی تاویل یا توجیہ کی ضرورت نہیں ہر چیز میں قدرت نے زندگی اور شعور بخشے ہیں،
قرآن کریم فرماتا ہے؛ " فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ" کفار کے مرنے پر آسمان و زمین نہیں روتے یعنی مسلمان کے مرنے پر روتے ہیں؛
اور فرماتا ہے؛ "وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ" ترجمہ بعض پتھر اللہ کے خوف کی وجہ سے گر جاتے ہیں؛
(ملخصاً من مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۱، حدیث نمبر ۵۹۱)
 یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو شدت گرمی سے محفوظ رکھے گا چنانچہ اہل جنت کے بارے میں 
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛ "مُّتَّكِينَ فِيهَا عَلَى ٱلْأَرَآئِكِ ۖ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا؛ ترجمہ؛ وہ جنت میں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گے نہ وہاں سورج کی گرمی دیکھیں گے نہ سردی کی سختی (سورہ الإنسان - 13) 
بحوالہ سردی کا موسم اور ہم؛ صفحہ ۲۳:۲۲) 
مؤلف؛ خالد تسنیم مدنی واللہ اعلم 
جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی