السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 Marry Christmas
 یعنی (کرسمس ڈے) كے تعلق سے حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی. 
سائل: محمد رضا برکاتی 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون المک الوہاب 
سوال مذکور کی حقیقت یہ ہے کہ ”میری کرسمس ڈے“ اس تیوہار کو کہتے ہیں جسے عیسائی لوگ پچیس دسمبر کو بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں پر افسوس کہ ایسے باطل مذہب کے باطل تیوہار پر قوم مسلم کے نوجوان و بچے بچیاں بھی شامل ہو خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ انکے ساتھ ایسے گھل مل جاتے ہیں کہ معاذ اللہ یہ انکی مذہبی عید ہو آج اکثر دنیاوی تعلیم کے ادارے یعنی اسکوس'س کالج'ز عیسائیوں کے ہی ہیں جن میں قوم مسلم کے بچے بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور عیسائیوں کے باطل تیوہار کو مناتے ہیں جوکہ سراسر ناجائز و حرام ہے، 
ذیل میں عیسائیوں کے اس مذہبی تیوہار یعنی کرسمس ڈے کی حقیقت کے بارے میں درج کیا جاتا ہے کہ اس تیوہار کی حقیقت کیا ہے اور اس میں مسلمان شرکت کر سکتا ہے یا نہیں اور اگر شرکت کرتے ہیں تو انکے بارے میں شرعی حکم کیا ہے، 
عیسائیوں کے یہاں کرسمس ڈے کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے یہ چودہویں صدی عیسوی کا ایک حادث تیوہار ہے لیکن دنیا بھر کے عیسائیوں نے اس اختراعی تیوہار کو اتنی مضبوتی سے تھاما کہ یہ صدیوں سے عیسائیت کی پہچان وشعار بن گیا ہے ہر چرچ اور عیسائی تنظیم گاہیں اس تاریخ (۲۵دسمبر) میں مزین کی جاتی ہیں اور دنیا کوطہہ باور کرایا جاتاہے کہ گویا یہ مسیحیوں کا عظیم الشان تیوہار ہے جس میں اربوں ڈالر کی شراب نہ صرف پی جاتی ہے بلکہ لنڈھائی جاتی ہے پھر اربوں ڈالر کی آتش بازیوں اور آتشی مادوں سے یوروپ و امریکہ(بلکہ جہاں جہاں عیسائی ہیں ہر جگہ) کے در و دیوار اور آسمانی فضا تھرا اٹھتی ہے ہفتہ عشرہ تک گنددھک کی بدبو سے ملک کا ملک مہکتا رہتاہے، 
بہر حال کرسمس ڈے انکا مذہبی تیوہار ہو یا نہ ہو مگر آج قومی تیوہار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس سے مسلمانوں کا دور رہنا لازم و ضروری ہے لقولہ علیہ السلام، ”من تشبه بقوم فھو منھم“ یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے؛ (مسندامام احمد) 
اور سنن ابی داؤد کتاب الجہاد ج۲ص۲۹ میں ہیکہ ”من جامع المشرک و سکن معه فانه مثله“ یعنی جس نے کسی مشرک کے ساتھ اشتراک عمل اور راہ و رسم کیا وہ اسی کے مثل ہےـ مسلمانوں کے لئے حرام ہیکہ ان کے تیوہار میں اپنے گھروں کو انہیں چیزوں سے مزین کریں جن سے وہ لوگ کرتے ہیں پھر ا. تاریخ میں انہیں ہدیہ دینا اور ان سے تحفہ لینا بھی حرام وممنوع ہے اور اگر کرسمس ڈے کی تعظیم مقصود ہوتو معاذ اللہ تعالٰی یہ کفر ہے 
(در مختار ج۲ص۳۵۰ اور ردالمحتار ج۵ص۴۸۱ میں ہیکہ ”الاعطاء باسمـ النیروز والمھر جان(بان یقال ھدایة ھٰذالیوم ش) لایجوز ای الھدایا باسم ھٰذین الیومین الحرام و ان قصد تعظیمه کما یعظمه المشرکون یکفر“ یعنی نیروز اور مہر جان (مجوسیوں کے عیدوں کے نام) کے نام پر عطیہ کا تبادلہ˝یہ کہکر کہ یہ آج کا ہدیہ ہے˝ جائز نہیں یعنی ان دونوں دنوں کے ناموں پر تحفے دینا لینا حرام ہے. اور اگر مشرکین مجوسی کی طرح انکی تعظیم بھی کریگا تو کفر ہوگا! 
اور ہدایا(ہدیہ کی جمع) کی طرح مبارک بادیوں کا تبادلہ بھی حرام وناجائز ہے جس سے مسلمانوں کو بچنا ضروری ہے آتش بازی تو یوں بھی حرام و بد انجام اور شیطانی کام ہے جس میں ضیاع مال کے ساتھ ساتھ تلف جان کا بھی اندیشہ قوی ہے چنانچہ ہر کرسمس ڈے کے موقع پر یوروپ وامریکہ (ودیگر ممالک میں بھی) میں درجنوں جانیں ضائع ہوتی ہیں مسلمانوں پر فرض ہیکہ اور مال و جان کو ہلاک ہونےسے بچائیں اور آتش بازی شیطانی کارسازی سے دور رہیں 
اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہیکہ ”ان المبذرین کانوا اخوان الشیطان“ یعنی فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور بھی ارشاد الٰہی ہے ”لا تلقوا بایدیکم التھلکة“ یعنی اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو 
(ماخوذ از فتاوٰی یوروپ ص۵۴۱\۵۴۲)
 اور سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛ کرسمس، ہولی، دیوالی وغیرہ کو اچھاسمجھنا اسکی تعظیم میں مبارکباد دینا کفر ہے، (فتاوی رضویہ،14/273)
حاصل کلام یہ کہ کرسمس ڈے میں مسلمانوں کا شرکت کرنا حرام اشد حرام ہے بلکہ کوئی تعظیم و عقیدت کی نیت سے شرکت کرے تو کفر ہوگا جیساکہ مذکورہ بالا کتب معتبرہ کے حوالہ جات سے روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہوگیا 
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب 

کتبہ؛ محمد امجد علی نعیمی 
مقام رائے گنج اتر دیناج پور مغربی بنگال