السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مومن دوسرے مومن کو انگریزی نئے سال کی مبارک باد پیش کرے تو اس کے لئے شریعت کی طرف سے کیا حکم ہے
بحوالہ مکمل جواب ارسال فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل؛ محمد وارث علی اکبر نگر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
ایک مومن دوسرے مومن کو انگریزی نئے سال کی مبارک بادی دے سکتا ہے اس میں شرعا کوئی ممانعت نہیں لوگ اس وجہ سے ایک دوسرے کو آپس میں نئے سال کی مبارکبادی دیتے ہیں کہ آنے والا سال ہمارے اور آپ کے لئے مبارک رہے اور خیر و عافیت سے گزرے یہ جائز ہے اور اگر کوئی اس نیت سے انگریزی نئے سال کی مبارکبادی دیتا ہے کہ یہ انگریزوں کا بنایا ہوا ہے اس کی تعظیم کی نیت سے مبارکبادی دیتا ہے تو یہ جائز نہیں لیکن کوئی بھی مسلمان کسی کو اس نیت سے مبارک باد نہیں دیتا-
اسی طرح کا ایک سوال سراج الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ سے سوال ہوا کہ انگریزی نئے سال کی مبارکبادی دینا کیسا ہے تو جواب میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
"نئے سال کی مبارک باد دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ سال آپ کے لئے مبارک رہے ، خیر سے گزرے۔ یہ جائز ہے کہ دعائے خیر ہے۔ ہاں اگر کوئی انگریزوں کے بنائے ہوئے ماہ و سال کی تعظیم کے لیے کہے تو مکروہ ہے مگر عام طور پر مسلمان سے یہ نیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا مقصد دعاۓ خیر ہوتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(سراج الفقہاء کی دینی مجالس صفحہ۱۴۴)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مزید معلومات کے لئے مفتی محمد اظہار القیوم صدیقی صاحب قبلہ پاکستان، کا رسالہ بنام نئے عیسوی سال کی مبارکبادی دینا کیسا ہے؟ اس کا مطالعہ کریں؛
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد قمر الدین قادری
گیناپور بہرائچ شریف (یوپی)
0 تبصرے