باسمہ تعالی وبحمدہ والصلوات والتسلیمات علی حبیبہ المصطفے والہ
آج تک یہ یادیں ذہن میں محفوظ ہیں کہ جب بابری مسجد کی شہادت نہیں ہوئی تھی تو بھارت کے مسلمان انتہائی شان و شوکت کے ساتھ جیتے تھے۔ماحول اس قدر خوفناک بھی نہیں تھا،نہ ہی عوام و خواص میں اس قدر عصبیت و نفرت بھری ہوئی تھی۔ہندو اور مسلم دونوں قوموں کے درمیان اعتماد بھی بحال تھا۔عام طور پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت بھرا سلوک بھی کرتے تھے۔
بابری مسجد کی شہادت سے قبل بنارس
میں فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں اتی تھیں۔اس وقت اتر پردیش میں ملائم سنگھ کی حکومت تھی۔اسی عہد میں بابری مسجد کے گنبد پر بہت سے کارسیوک اسے منہدم کرنے چڑھ گئے تھے۔کارسیوکوں کو پولیس والوں نے نیچے اترنے کہا۔جب وہ کسی صورت کنٹرول میں نہ ائے تو پولیس نے گولیاں چلا دیں۔کئی ایک کار سیوک وہیں پر دم توڑ دئیے۔
بھارت کے ماحول میں تعصب و نفرت اس وقت سے نظر انے لگی،جب لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ مندر سے رتھ یاترا نکالا۔ملک بھر میں جابجا فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگے۔ہم نے اپنی اںکھوں سے بہار میں اڈوانی کا رتھ یاترا روڈ پر گزرتے دیکھا تھا۔اڈوانی کے رتھ کے اگے پیچھے بہت سی فور وہیلر گاڑیاں تھیں۔
چند گھنٹوں بعد ہی خبر ملی کہ سمستی پور میں لالو پرساد یادو کے حکم سے اڈوانی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
06:دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کا دہشت ناک حادثہ پیش ایا۔اس وقت ہم لوگ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں زیر تعلیم تھے۔
کچھ بڑے طلبہ نیوز کے واسطے ریڈیو رکھتے تھے۔جیسے ہی بابری مسجد پر حملے کی خبر ائی۔غیر اعلانیہ طور پر درس بند ہو گیا۔بچے ہاسٹل میں جمع ہو کر نیوز سننے لگے۔اساتذہ کرام بھی درس گاہی بلڈنگ میں خبر سننے لگے۔
اساتذہ و طلبہ سب کے سب غم و الم سے نڈھال ہو گئے۔ہر چہار جانب رنج و افسوس کا ماحول پیدا ہو گیا۔شام کے وقت دار الحدیث ہال(موجودہ اسٹاف روم)میں تمام طلبہ و اساتذہ جمع ہوئے۔حضور محدث کبیر صاحب قبلہ نے اپنے بیان میں بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہم لوگوں نے حضور مجاہد ملت قدس سرہ العزیز کی تحریک خاکساران حق کا سپورٹ نہیں کیا اور اس کو قوت نہ دے سکے۔اج وہ تحریک قوت و طاقت کے ساتھ ہوتی تو ہمارا سہارا بنتی۔
کئی دنوں تک درس گاہوں میں تعلیم بند رہی۔رسمی طور پر اساتذہ و طلبہ کلاس روم میں حاضر ہوتے۔عجب ماحول تھا۔اساتذہ و طلبہ سب پر غم و الم چھایا نظر اتا تھا۔اس موقع پر کئی بار طلبہ کو دار الحدیث ہال میں جمع کیا گیا تھا۔بابری مسجد کی بازیابی کے لئے دعائیں کی گئی تھیں۔
وزیر اعظم نرسمہا راو نے 6:دسمبر کی شام کو دوبارہ بابری مسجد تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔یوپی کےبھاجپائی وزیر اعلی کلیان سنگھ نے شام کو استعفی دے دیا۔ایک دن کے لئے وہ جیل گیا۔بابری مسجد کے انہدام کے کیس میں اڈوانی،مرلی منوہر جوشی،کلیان سنگھ،اوما بھارتی اور بہت سے لوگوں پر کیس درج ہوا۔وشو ہندو پریشد،بی جے پی اور شیو سینا کے لوگوں نے اس انہدام میں اہم کردار نبھایا تھا۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد اشرفیہ کے مین گیٹ کے پاس پولیس فورس متعین کر دیا گیا۔عارضی طور پر کئی ایک ہوٹل گیٹ کے اندر منتقل کر دئیے گئے۔گیٹ کے باہر کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔رات کو قدیم ہاسٹل کے دونوں گیٹ بند ہو جاتے اور بڑے طلبہ راتوں بھر ہاسٹل کی چھت پر باری باری پہرہ دیتے۔یہ سلسلہ شعبان تک جاری رہا،پھر سالانہ امتحان کے بعد چھٹی ہو گئی۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں فسادات شروع ہو گئے تھے۔یو پی کے بہت سے مدارس میں چھٹی کردی گئی تھی۔
اس پاس کے چھوٹے مدارس کے بہت سے طلبہ جامعہ اشرفیہ ا گئے تھے۔
اسی عہد میں ممبئ میں بم بلاسٹ ہوا تھا۔ملک بھر میں نفرت و تعصب کی شدت محسوس کی جانے لگی تھی۔ملک کی دونوں بڑی قوموں کا باہمی اعتماد ٹوٹ چکا تھا۔عجب سرا سیمگی کا ماحول ملک بھر میں پیدا ہو چکا تھا۔
اس کے بعد رضااکیڈمی ممبئی نے 6:دسمبر کو یوم سیاہ کے طور پر منانا شروع کیا۔
بابری مسجد کے انہدام کے ساتھ بھارت کی جمہوریت کی روح بھی جاں بلب ہو گئی تھی۔
بابری مسجد کا کیس فیض اباد سے الہ اباد منتقل کر دیا گیا۔الہ اباد کے فیصلے کو فریقین نے تسلیم نہیں کیا اور معاملہ سپریم کورٹ اگیا۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد کجرات فساد:2002نے مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دیا۔
09:نومبر 2019کو سپریم کورٹ نے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا۔اب اج یعنی 05:اگست 2020کو رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔
ابھی تو سورج طلوع ہونے میں کئی گھنٹے باقی ہیں۔
ان شاء اللہ تعالی کبھی وہ سورج بھی طلوع ہو گا کہ بھارت میں انصاف پروری کی بہار ا جائے گی۔امیدوں پر دنیا قائم ہے۔ہم بھی امیدوں کے سہارے جی رہے ہیں۔
یہ غیر مرتب اور منتشر تحریر ہے۔جو ذہن میں محفوظ یاد داشتوں کو اپنے احباب تک پہنچانے کے لئے رقم کی گئی ہے۔
کیا ہمارے بچپن کا بھارت کبھی واپس ائے گا؟
کیا بھارتی اقوام میں پھر کبھی وہ اعتماد ومحبت واپس ا سکے گی؟
کیا اب ہم سب کو اسی طرح نفرت و عداوت کے ماحول میں جینا ہو گا؟
کیا کوئی میرے سوالوں کے صحیح جواب دے گا؟
شاید جواب کے لئے بہت انتظار کرنا ہو گا۔ممکن ہے کہ ایک مدت تک ہر طرف سناٹا چھایا رہے۔
ہم اگلی نسلوں کو کیسا بھارت سونپنے جا رہے ہیں۔ایسی وراثت کہ جس میں تعصب،عداوت،نفرت،قتل و غارت گری،مظلوموں کی چیخ و پکار،غریبوں کی فاقہ کشی،تنگ دستوں کی خود کشی،فریب و دغا بازی،عورتوں کی عصمت دری،رشوت خوری و نا انصافی اور نہ جانے کتنے عیوب موجود ہیں۔ملک کے حالات دیکھ کر رونا اتا ہے۔اس کے علاوہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
عندلیب مل کے کریں اہ و زاریاں
تو ہائے گل پکارے میں پکاروں ہائے دل
خون سے کرتے وضو تیرے نمازی آئیں گے
تیرے خاطر لگاتے وہ جاں کی بازی آئیں گے
عظمت رفتہ تیری ہوکر رہےگی بازیاب
بابری مسجد، تیرے در حق کے غازی آئیں گے
جاری کردہ: محمد عارف رضوی قادری
0 تبصرے