السلام علیکم و رحمةاللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماۓکرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے میت کے غسل میں اور زندہ کے غسل میں بہت فرق ہے مگر بکر کہتا ہے کہ کچھ فرق نہیں ۔ تو اس معاملے کس کا کہنا صحیح ہے؟ 
جواب عنایت فرماکرعنداللہ ماجور ہوں اورعندالناس مشکور ہوں 
المستفتی؛ ڈاکٹر ملک محمد غفران نظامی علیمی علی گڑھ

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب 
زید کاقول صحیح ہے زندہ اور مردہ کے غسل میں فرق ہے ۔ بکر کا کہنا صحیح نہیں ہے؛ 
استاذالفقہاء حضورفقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمدالامجدی علیہ الرحمةوالرضوان تحریرفرماتےہیں ،، زندہ اور مردہ کےغسل میں پانچ باتوں کا فرق ہے
(اول) زندہ کوپہلے دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا سنت ہے اور مردہ کاپہلے چہرہ دھونا مستحب ہے 
(دوم) زندہ کو کلی کرنا فرض ہے اورمردہ کےغسل میں کلی نہیں 
(سوم) زندہ کو ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے اور مردہ کے غسل میں منع ہے 
(چہارم) زندہ کو حکم ہے کہ اگر پاؤں کے پاس دھؤن کے جمع ہونے کا امکان ہوتوغسل کے وضومیں پاؤں نہ دھوۓ بلکہ غسل سے فارغ ہوکر دوسری جگہ دھوۓ مگرمردہ کے غسل میں پاؤں کا دھونا مؤخر نہ کرے،
(پنجم) زندہ اپنے غسل کے وضومیں سر کامسح کرے اورمردہ کے وضو میں ایک روایت کے مطابق سر کا مسح نہیں اور صحیح یہ ہے کہ اس کے بھی سر کا مسح کرے، 
جیساکہ تفسیرروح البیان جلددوم صفحہ ٣٥٦ میں ہے ،، "الفرق بین غسل المیت والحی انه یستحب البدایة بغسل وجه المیت بخلاف الحی ولایؤخر غسل رجلیه بخلاف الحی ان کان فی مستنقع الماء ولایمسح راسه فی وضوءالغسل بخلاف الحی فی روایة کذا فی الاشباہ" 
(اورفتاوی عالمگیری جلداول صفحہ ١٤٨) پرغسل میت کے بیان میں ہے ،، "یبدأ بغسل وجھه لابغسل الیدین کذا فی المحیط ولایمضمض ولایستنشق کذا فی قاضی خان" "واخلفوا فی مسح راسه والصحیح انه یمسح راسه ولا یؤخرغسل رجلیه کذا فی التبیین"
(عجائب فقہ صفحہ ٧١ غسل کی پہلیاں)
 وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبہ؛ محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام بتھریاکلاں ڈومریاگنج سدھارتھنگر یوپی