السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسٸلہ ذیل میں کہ اعلان نبوت سے قبل چونکہ قرآن پاک نازل نہیں ہوا تھا تو اس وقت حضور ﷺ نماز پڑھتے تھے تو نماز میں کیا پڑھتے تھے ؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی 
المستفتی محمد نسیم الحق، رام گڑھ، جھارکھنڈ 

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک والوہاب 
قبل نبوت حضور کا نماز پڑھنا میری نظر نواز نہیں ہوئی ، ہاں یہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد قبل اسرا کے نماز پڑھتے تھے یا نہیں ، جواب یہ ہے کہ جس وقت نبوت کا اعلان کیے تھے اس وقت صرف توحید فرض تھا،
امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے کہ سب سے پہلے ڈر سنانا اور توحید کی طرف بلانا فرض کیا گیا، پھر اللہ تعالٰی نے قیام لیل فرض کردیا جس کا سورہ مزمل کی ابتداء میں ذکر ہے پھر اس کو منسوخ کردیا اس حکم سے جو سورہ مزمل کے آخر میں ہے، پھر اس کو بھی منسوخ کردیا اور اس کے بجائے مکہ مکرمہ میں معراج کی رات کو پانچ نمازیں فرض کردیں
 مجدد اعظم اعلیحضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں پیش ازاسراء دووقت یعنی قبل طلوعِ شمس وقبلِ غروب کے نمازیں مقرر ہونے میں علماء کو خلاف ہے اور اصح یہ ہے کہ اس سے پہلے صرف قیام لیل کی فرضیت باقی پر کوئی دلیل صریح قائم نہیں ۔
فی الدرالمختار اول کتاب الصلٰوۃ الصلاۃ فرضت فی الاسراء، وکانت قبلہ صلاتین، قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا۔ درمختار کی کتاب الصلٰوۃ کے آغاز میں ہے کہ نماز (باقاعدہ طور پر) معراج میں فرض ہوئی تھی، اس سے پہلے صرف دو۲ نمازیں تھیں، ایک طلوع سے پہلے دُوسری غروب سے پہلے؛ 
وفی المواھب، من المقصد الاول، " قبیل ذکر اول من امن، قال مقاتل: کانت الصلاۃ اول فرضھا رکعتین بالغداوۃ و رکعتین بالعشی، لقولہ تعالٰی وسبح بحمد ربک بالعشی والابکار۔ قال فی فتح الباری: کان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قبل الاسراء یصلی قطعاً، وکذلک اصحابہ ؛ ولکن اختلف ھل افترض قبل الخمس شیئ من الصلاۃ ام لا ؟ فقیل ان الفرض کان صلاۃ قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا۔ والحجۃ فیہ قولہ تعالٰی وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا انتھی " اور مواہب کی فصل اوّل میں جہاں اولین ایمان لانے والوں کا ذکر ہے، اس سے تھوڑا پہلے مذکور ہے کہ مقاتل نے کہا ہے کہ ابتداء میں نماز کی صرف دو۲ رکعتیں صبح کو اور دو۲ رکعتیں رات کو فرض تھیں کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے اور تسبیح کہو اپنے رب کی حمد کے ساتھ رات کو اور سویرے۔ فتح الباری میں کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے پہلے نماز تو یقینا پڑھتے تھے اور اسی طرح آپ کے صحابہ بھی پڑھتے تھے، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے کوئی نماز فرض بھی تھی یا نہیں! تو کہا گیا ہے کہ ایک نماز طلوع سے اور ایک غروب سے پہلے فرض تھی اور اس پر دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے: اور تسبیح کہو اپنے رب کی حمد کے ساتھ طلوع شمس سے پہلے اور غروبِ شمس سے پہلے، 
(شرح الزرقانی علی المواہب المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی لہ علیہ وسلم مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر ۱/۲۷۴) اب بات رہی کس انداز سے نماز پڑھتے تھے اور کیا پڑھتے تھے ، مجدد اعظم اعلیحضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ؛ قرآن و احادیث سے یہی ظاہر ہے کہ قبل اسرا والی نماز اسی انداز کی تھی ،۔ طہارت ، وضو ، استقبال قبلہ،، تکبیر تحریمہ ، قیام ، قرأت ، رکوع ، سجود ، یہاں تک کہ جماعت بھی تھی، "وقال الزرقانی تحت ماتقدم من قول مقاتل رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشی،یحتمل انہ کان یقرؤ فیھما بما اٰتاہ من سورۃ اقرء،حتی نزلت الفاتحۃ ٦" ور مقاتل کا جو قول پہلے گزرا ہے کہ دو٢ رکعتیں صبح کی اور دو٢ رکعتیں رات کی فرض تھیں،اس کے تحت زرقانی نے کہا ہے"ممکن ہے کہ نزولِ فاتحہ سے پہلے رسول الله ان رکعتوں میں سورۃ اقرأ کی وہ آیات پڑھتے ہوں جو نازل ہوچکی تھیں 
فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 67 رضا فاؤنڈیشن لاہور) شرح جامع ترمذی شریف جلد اول ) 
واللہ سبحٰنہ تعالیٰ اعلم 
کتبہ؛ حضرت مولانا محمد منظر رضا نوری اکرمی نعیمی
کرسنڈا جونیہ بستول کٹیہار بہار