السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ 
کیافرماتے ہیں علمائے اکرام ومفتیان شرع متین کہ نمازی کے سامنے گزرنا منع ہے وہ تو معلوم ہے لیکن ایک نمازی کےسامنے دس بیس صف خالی پڑاہے اس سے گزرنا جائزہے یانہیں اگرجائزہے تو منع کی ہوئ حد کتنی ہیں اورنمازی کے سامنے سیدھا قبلہ طرف جاناجائز ہے یانہیں بحوالہ جواب سے مزین فرماویں تاکہ بہت مشکورہوں؛ 
سائل: مولانا نبی حسین 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب 
نمازی کے آگے سے گزرنے والا گنہگار ہوتا ہے، نماز اگر مکان یا چھوٹی مسجد میں پڑھتا ہو تو دیوار تک قبلہ نکلنا جائز نہیں۔ جب تک بیچ میں آڑ نہ ہو صحرا یا بڑی مسجد میں پڑھتا ہو تو صرف موضع سجود تک نکلنے کی اجازت نہیں؛
اس سے باہرنکل سکتا ہے۔ موضع سجود کے یہ معنی کہ آدمی جب قیام میں اہل خشوع و خضوع کی طرح اپنی نگاہ خاص جائے سجود پر یعنی جہاں سجدہ میں اس کی پیشانی ہوگی تو تو نگاہ کا قائدہ ہے کہ سامنے روک نہ ہو تو جہاں جما ہے وہاں سے کچھ آگے پڑھتی ہے ، جہاں تک آگے بڑھ کر جائے وہ سب موضع سجود ہے ۔ اس کے اندر نکلنا حرام ہے اور اس سے باہر جائز؛ 
ردالمختار میں ہے "مرو رمانی فی الصحراء او فی مسجد کبیر بموضع سجودہ فی الاصح اومرورہ بین یدیه الی حائط القبله فی بیت مسجد صغیر فانه کبقعة واحدة" گزرنا گزرنے والے کا جنگل میں یا بڑی مسجد میں اس کے سجدہ کی جگہ سے بیچ اصح روایت کہ گزرنا اس کا اس کے آگے سے قبلہ کی سمت والی دیوار تک گھر میں اور چھوٹی مسجد میں کیوں کہ وہ ایک جگہ کی طرح ہے، (احکام شریعت، ص:٦٦،٦٧) 
لہذا معلوم ہوا کہ نماز اگر مکان یا چھوٹی مسجد میں پڑھتا ہو دیوار تک قبلہ نکلنا جائز نہیں جب تک بیچ میں آڑ نہ ہو،
اور اگر صحرا یا بڑی مسجد میں پڑھتا ہو تو صرف موضع سجود کے اندر نکلنا جائز نہیں اس سے باہر جائز ہے؛
(اور تفصیل کے لئے دیکھیں ص: ٦٦ سے ٦٩ تک) 
(ھکذا فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ ۱۷۰)
 واللہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبہ؛ محمد مدثر جاوید رضوی 
مقام دھانگڑھا علاقہ۔ بہادر گنج ضلع کشن گنج بہار