السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مکروہ کسے کہتے ہیں اور حضرت ناجائز اور حرام میں کیا فرق ہے وضاحت فرمائیں؟
سائل : محمد خان راۓ بریلی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
مکروہ کراہت سے بنا ہے جس کا معنی آتا ہے نا پسندیدہ لہذا مکروہ وہ ہے جو شرعا نا پسندیدہ ہو تو یہ ناپسندیدگی کبھی اس حد تک لے جاتی ہے کہ بقرب تحریم کر دیتی ہے کہ جس کے کرنے پر برود وعید عذاب اور نہ کرنے پر ترتیب ثواب جس کو مکروہ تحریمی کا نام دیا جاتا ہے
اور کبھی اس حد تک کہ جس کا نہ کرنا باعث ثواب ہے اور کرنا اگر چہ عادۃ کیوں نہ ہو عتاب نہیں مگر نہ کرنا اولی جس کو مکروہ تنزیہی کہا جاتا ہے
رہا ناجائز اور حرام میں عمل نہ کرنے میں فقہی اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ دونوں ممنوع اور اللہ رب العزت کی نافرمانی ہے اور اس کی ناراضگی کا سبب مگر حرام میں ناجائز کے مقابلے میں سختی زیادہ ہے کہ حرام وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو جب کہ ناجائز وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو لہذا ہر حرام کو ناجائز کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ناجائز کو حرام نہیں کہہ سکتے ؛ نیز ناجائز کا منکر کافر نہیں جب کہ حرام قطعی کا منکر کافر ہے (ماخوذ از کتب فقہ)
جیسا کہ فتاوی امجدیہ کے حاشیہ میں حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ مصباحی علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ حرام کا ثبوت صرف اس دلیل سے ہوگا جس کا ثبوت واثبات دونوں قطعی ہو اور طلب کف جازم ہو جبکہ ناجائز کاثبوت تین طرح کی دلیلوں سے ہوتا ہے،
(۱) ثبوت قطعی، اثبات ظنی اورطلب کف جازم
(۲) ثبوت ظنی اثبات قطعی اورطلب کف جازم
(۳) ثبوت واثبات دونوں ظنی اور طلب کف جازم اس سے ظاہر ہے کہ حرام ناجائز ضرور ہوتا ہے لیکن ہر ناجائز حرام نہیں ہوتا؛
(فتاوی امجدیہ جلد چہارم (۴) صفحہ (۱۵۴) مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی پاکستان) واللہ اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد ساجد چشتی
شاہجہاں پوری خادم مدرسہ دارارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف
0 تبصرے