السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
علمائے کرام کے بارگاہ میں میرا ایک سوال ہے، زید کہتا ہے کہ مسجد میں اشتہار لگانا جائز ہے اور بکر کہتا ہے کہ ناجائز ہے اب طلب امر یہ ہےکہ زید کی بات صحیح ہے یا بکر کی حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی 
السائل شعیب رضا بلرام پور 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب 
اشتہار میں عام طور سے دینی مسائل اور مدرسہ کے لیے چندہ کی اپیل ہوتی ہے اس کو مسجد کے اندر لگانے کی صورت میں دو باتیں قابل لحاظ ہیں ، 
اس میں مسئلہ کوئی غلط نہ لکھا ہو اور کسی گمراہ فرقہ کا وہ اشتہار نہ ہو، اگر یہ دونوں باتیں اس اشتہار میں نہ ہوں تو اس کا مسجد میں لٹکانا درست ہے بلکہ کار ثواب ہے ، ہاں یہ خیال رہے اس دیوار میں اس کو نہ لٹکایا جائے جو پچھم طرف ہے کیونکہ نماز پڑھتے ہوئے اگر اس پہ نگاہ پڑی تو مصلی کا خیال بٹے گا ۔ 
جیساکہ حدیث شریف میں ہے ۔ کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں دینی مسائل بتاتے تھے اور دینی کاموں کےلئے چندہ کرتے تھے علماء فرماتے ہیں، القلم احد اللسانین " : یعنی آدمی کے پاس دو زبانیں ہیں ایک گوشت پوست کی جو منہ میں ہے اور دوسری قلم ہے تو جو بات منہ سے کہی جاسکتی ہے قلم سے لکھ کر کیوں نہیں ٹانگی جا سکتی ہے ، گمراہوں کے مدرسہ کو چندہ دینا جائز نہیں تو اس کے لئے زبان سے بھی مسجد میں نہیں کہہ سکتے اور غلط مسئلہ بتانا ناجائز تو مسجد میں زبانی بھی نہیں بیان کر سکتے ۔ 
ماخوذ فتاوی بحرالعلوم جلد دوم صفحہ ۲۲۶ کتاب الزکاۃ ۔مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور ۔
لہذا مسجد پر اشتہار لگانے سے کلر اور شائننگ متاثر ہونے کا قوی امکان ہے اس لیے لٹکانے کی اجازت ہے لگانے کی نہیں یا اگر مساجد میں اشتہار کے لئے فریم پوائنٹ ہو تو لگانا اور لٹکانا دونوں درست ہے ـ
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 
کتبہ؛ محمد مشاہدرضا قادری گونڈوی 

✅ الجواب صحیح 
خلیفۂ حضور تاج الشریعہ 
حضرت علامہ مفتی سید شمس الحق برکاتی مصباحی صاحب قبلہ