حروف تہجی؛
سے خاص اعداد اور اعداد سے خاص کلمات مراد لینا اہلِ عرب میں قدیم زمانہ سے رائج ہے، اور تاریخ میں تعویذات میں اس فن سے استفادہ کا سلف کا معمول رہا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص بغرضِ احتیاط تسمیہ کے بجائے اس کے اعداد "786" لکھے تو اس کا یہ عمل ناجائز نہیں کہلائے گا.
علم الاعداد میں حروف ابجد کے اعتبار سے 786 بسم اللہ الرحمن الرحیم کا عدد ہے.
کچھ لوگ ﷽ کے عدد 786 شمار نہیں کرتے بلکہ 11187 یا 787 ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ علم الاعداد کے قواعد سے بالکل واقفیت ہی نہیں ہے.
اب اس کی تحقیق پڑھیں.
(1)علم الاعداد میں لکھے ہوئے حروف کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ پڑھے جانے والے حروف کا۔
(2)تاریخ میں کتابت کا اعتبار ہے، نہ سماع و قیاس و تلفظ کا.
(3)تاریخ میں جتنے حروف لکھے جاتے ہیں اگرچہ ان کو پڑھا نہ جاتا ہو تب بھی ان کے عدد محسوب ہوتے ہیں۔ الرحمن میں جب کھڑا زبر میں الف کا عدد لیا جائے تو حرکات ثلاثہ زبر، زیر، پیش اور جزم وغیرہ نے کیا قصور کیا ہےجو ان کو شمار نہیں کیا؟
اسی بنا پر حرف مدغم و مشدد مثلاً نبیّ، وصیّ،ومعظّم میں صرف ایک "ی" اور ایک "ظ" کے عدد لیے جاتے ہیں، تو الرحمن میں کھڑے زبر کا عدد شمار نہیں ہوگا۔
معلوم ہوا کہ حرکات خواہ زبر، زیر، پیش ہوں یا کھڑا زبر، کھڑی زیر، الٹا پیش ہوں ان کے اعداد شمار نہیں ہوتے۔ اسی طرح حرف مشدد ومدغم میں ایک ہی حرف شمار کیا جاتا ہے۔
چنانچہ رحمان کو اگر الف کے ساتھ لکھیں تو اس کے عدد 330 ہوں گے اور اگر بغیر الف کے اس طرح لکھیں ’رحمن‘ تو اس کے عدد 329 ہوں گے، جیسے لفظ مولانا کو اگر الف سے لکھیں یعنی ”مولانا‘‘ تو اس کے عدد 128 ہوں گے اور اگر یاء کے ساتھ لکھیں مثلاً "مولینا" تو اس کے عدد 137 ہوں گے۔معلوم ہوا کہ بسم الله الرحمن الرحیم کے عدد 786 ہی ہیں، جو شروع سے سب حضرات لکھتے چلے آرہے ہیں۔
﷽ کے تمام حروف کا جائزہ لیتے ہیں :
ب = 2
س = 60
م = 40
ا = 01
ل = 30
ل = 30
ہ = 5
ا = 01
ل = 30
ر = 200
ح = 8
م = 40
ن = 50
ا = 1
ل = 30
ر = 200
ح = 8
ی = 10
م = 40
ان اعداد کا مجموعہ 786 ہوگا۔
اب رہ گئی یہ بات کہ یہ عدد "ہرے کرشنا" کے بھی بنتے ہیں، اس لیے نہیں لکھنا چاہیے تو یہ بالکل فضول اور بے دلیل بات ہوئی، اس لئے کہ "ہرے کرشنا" غیرعربی ہندی اور سنسکرت کا لفظ ہے، اسےعربی الفاظ واعداد کی جگہ رکھنا صریح حماقت ہے.
"الف" ی" اور "واو" سنسکرت میں آتےہی نہیں بلکہ ان کو سنسکرت میں ماترا شمار کیا جاتا ہے.
"ہرے کرشنا" کے اعداد 436 ہوئے اس میں موجود" الف" اور" ی" کو ماترا مانیں یعنی حرکت شمار کریں اور حرکت کا عدد نہیں ہوتا لھذا اب اس کے عدد 425 ہوئے.
نیز فقہ کا قاعدہ ہے : المعروف کالمشروط ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے اور عرف میں 786 بسم الله الرحمن الرحیم کے لیے لکھا جاتا ہے نہ کہ" ہرے کرشنا" کے لیے، جب لکھنے والے کی اس سے مراد بسم اللہ ہے تو" ہرے کرشنا "کیونکر لیا جائے گا؟
﷽ شریف کی جگہ 786 لکھنے کی وجہ
بسم اللہ کی جگہ 786 لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بسم الله الرحمن الرحیم چونکہ قرآنِ کریم کی ایک مستقل آیت ہے، جس کو بے وضو ہاتھ لگانا اور جس پر غسل واجب ہو اس کے لیے پڑھنا جائز نہیں ہے، اس لیے خطوط وغیرہ کے سرنامہ پر اور ان جگہوں پر جہاں بے ادبی کا اندیشہ ہو بجائے بسم اللہ کے 786 لکھ دیتے ہیں تا کہ بسم الله کی بے ادبی سے بچا جا سکے اور خط پڑھنے والا ان اعداد کو دیکھ کر سمجھ لے کہ مجھے یہاں بسم اللہ پڑھنی چاہیے اور حدیث شریف میں مذکور وعید
" كل أمر ذي بال لم يبدأ بسم الله فهو اقطع وابتر"
ترجمہ: ہر اچھا کام جو بسم اللہ سے شروع نہ ہو تو وہ خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔"سے محفوظ رہے۔
واضح رہے کہ 786 کا حکم بسم الله کا نہیں، کہ بے وضو ہاتھ لگانا جائز نہ ہو، لکھنے والے کی نیت اس کو لکھنے کی یہ رہتی ہے کہ میں نے اس تحریر سے پہلے بسم اللہ پڑھی ہے، تم بھی پڑھ لینا۔ اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں نہ ہی شرعاً ممنوع ہے، بلکہ قریبی سلف صالحین سے اس کا استعمال ثابت ہے.
خلاصہ :حیات فقیہ اعظم ہند، شارح بخاری،
مفتی شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ
تالیف؛ یسین اختر مصباحی.
منجانب؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی
0 تبصرے