السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ تعویز پہننے کی اصل ہمیں کہاں سے ملتی ہے؟ اللہ جل جلالہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے، صحابی کرام سے یا تابعین و تابع تابعین سے 
الساٸل: محمد نعمان خان رضوی 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب 
قرآنی آیت پڑھ کر دم کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، قرآنی کلمات اور ذکر و دعا کو لکھ کر گلے میں لٹکانا بھی جائز ہے اسے تعویز کہا جاتا ہے; اس کے ثبوت پر کئی محدثین حدیث کی کتابوں میں مستقل عنوان بھی قائم کیا ہے اور آثار صحابہ وتابعین کو بھی ذکر کیا ہے،، جیسا کہ حاکم نے المستدرک میں اور ابن بطہ نے الابانۃ میں یہی نقل کیا ہے " بسم الله اعوذ بکلمات الله التّامّات من غضبه وسوء عقابه ومن شرً عبادہ ومن شرً الشّیاطین وأن یحضرون" حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے بالغ لڑکوں کو دعا کے یہ کلمات سکھاتے تھے اور نابالغ بچوں کے گلوں میں لکھ کر لٹکاتے تھے،، (مصنف ابن ابی شیبۃ ۵ - ۴۳، حدیث ۲۳۵۴)
 یہ حدیث سنن الترمزی، سنن النسائ، مسند احمد، الاسماء والصفات، للبیھقی، الدعا للطبرانی، مستدرک حاکم وغیرہ کتب احادیث میں موجود ہے 
(دم اور تعویز کی شرعی حیثیت؛ صفحہ ۲۴)
 اور صاحب بہارشریعت لکھتے ہیں؛ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے، جبکہ وہ تعویذ جائز ہو یعنی آیاتِ قرآنیہ یا اسمائے الٰہیہ اور ادعیہ سے تعویذ کیا گیا ہو اور بعض حدیثوں میں جو ممانعت آئی ہے، اس سے مراد وہ تعویذات ہیں جو ناجائز الفاظ پر مشتمل ہوں جو زمانۂ جاہلیت میں کیے جاتے تھے۔ اسی طرح تعویذات اور آیات و احادیث و ادعیہ رکابی میں لکھ کر مریض کو بہ نیت شفاپلانا بھی جائز ہے۔ جُنب (یعنی جس پرجماع یااحتلام یا شَہوت کے ساتھ مَنی خارِج ہونے کی وجہ سے غُسل فرض ہو گیا ہو۔) و حائض (یعنی حیض والی) و نفسا (یعنی نفاس والی) بھی تعویذات کو گلے میں پہن سکتے ہیں، بازو پر باندھ سکتے ہیں جبکہ تعویذات غلاف میں ہو (بہارشریعت، حصہ ۱۶، صفحہ ۶۵۵/ مکتبۃ المدینہ کراچی)
 لہٰذا مذکورہ بالا تحریحات سے معلوم ہوا کہ تعویز پہننا جائز و درست ہے 
 واللہ اعلم بالصواب 
کتبہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی