السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علما کرام ومفتیان شرع متین اس مسٸلہ کے بارے میں کہ اس شخص کہ رہا ہے کہ وضو کرنا کیا ہے براۓ مہربانی جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں؛ 
المستفتی نصیب علی گونڈہ 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ہدایۃ الحق والصواب 
وضو، جس کا مطلب لغت میں پاکیزہ اور خوبصورت ہونا ہے، شرعاً نیت سے شروع کرتے ہوئے بعض مخصوص اعضاء میں پانی کے استعمال کو وضو کہتے ہیں، جس کی چونکہ اس کی برکت سے گناہوں کی تاریکی چھٹ کر نورانیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے وضو سے تعبیر کیا گیا، 
وضو کرنا کبھی واجب ہوتا ہے کبھی فرض ہوتا ہے کبھی سنت ہوتا ہے اور کبھی مستحب ہوتا ہے" 
ﷲ عزوجل فرماتا ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ؛ یعنی اے ایمان والو جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو (اور وضو نہ ہو) تو اپنے مونھ اور کُہنیوں تک ہاتھوں کو دھوؤ اور سرکا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھوؤ حضرت محمد مصطَفے صَلی اللہُ تَعَالی عَلیہ وَاٰلِہٖ وَسَلم فرماتے ہیں جب آدمی وُضو کرتا ہے توچہرہ دھونے سے چِہرے کے اور ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے او ر سر کا مَسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۱ص۱۳۰حدیث۴۱۵)
صحیح مسلِم میں عُقبہ بن عامِر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو مسلمان وُضو کرے اور اچھا وُضو کرے پھر کھڑا ہو اور باطن و ظاہرسے متوجہ ہو کر دو رکعت نمازپڑھے اس کے لیے جنت واجب ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم‘‘، کتاب الطھارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوئ، الحدیث:۲۳۴، ص۱۴۴) 
(بحوالہ بہار شریعت وضو کا بیان حصہ دوم صفحہ286)
 واللہ ورسولہ اعلم باالصواب 
کتبہ؛ محمد عارف رضوی قادری 
انٹیاتھوک بازار گونڈہ یوپی (الھند)