السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کسی شخص کا اگر عقیقہ نہ ہوا ہو تو وہ شخص قربانی کرسکتا ہے یا نہیں جبکہ وہ صاحب نصاب ہو مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں 
 سائل؛ شاہد حسین مظفر پور 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب 
سب سے پہلے عقیقہ کا مطلب اور حکم جان لیں عقیقہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے بچے کی پیدائش کے شکریہ میں ذبح کیا جائے ، اور یہ مستحب ہے یعنی کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں 
 حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مسئلہ: بچہ پیدا ہونے کے شکریہ میں جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اس کو عقیقہ کہتے ہیں ۔ حنفیہ کے نزدیک عقیقہ مباح و مستحب ہے۔ 
(بہار شریعت حصہ 15، عقیقہ کا بیان)
 دوسری بات یہ کہ نہ تو قربانی عقیقہ پر موقوف ہے اور نہ ہی عقیقہ قربانی پر کیوں کہ قربانی واجب ہوتی ہے اور عقیقہ مستحب اور واجب کسی مستحب پر موقوف نہیں ہو سکتا اور ہوگا تو اسے بھی واجب کر دے گا کہ کیوں کہ قاعدہ فقہیہ ہے : ما لا یتوصل إلی الفرض إلا بہ یکون فرضا (المسائل البھیۃ الزکیۃ) نیز " قربانی واجب ہونے کے شرائط میں کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ عقیقہ ہو چکا ہو تبھی بندہ پر قربانی واجب ہوگی تو جس کا عقیقہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اگر اس پر قربانی واجب ہے تو اسے قربانی کرنا ضروری ہے چاہے عقیقہ کرے یا نہ کرے لہذا زید اپنی طرف سے قربانی کر سکتا ہے بلکہ اگر اس پر قربانی واجب ہو تو کرنا ضروری ہوگا یہاں تک کہ اگر قربانی نہیں کیا تو گناہ گار ہوگا لیکن اگر عقیقہ کے نام سے کچھ نہیں کیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں 
لہذا عوام میں جو مشہور ہے جس کا عقیقہ نہیں ہوا وہ قربانی نہیں کر سکتا محض جہالت ہے 

 واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
  شرف قلم؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی