سوال: جان بوجھ کر کسی جاہل سے مسئلہ پوچھنا کیسا ؟
جواب عنایت فرمائیں۔۔۔۔
سائلہ؛ فردوس پروین کلکتہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبركاتہ
جواب : گناہ ہے ۔ تاجدارِ رسالت، محبوبِ ربُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ سراپا عبرت ہے : مَنْ اَفْتیٰ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ اِثْمُہُ عَلیٰ مَنْ اَفْتَاہُ ۔ یعنی جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے ۔ ‘‘ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۳ ص۴۴۹ حدیث ۳۶۵۷ )
مُفَسّرِ شہیر حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ، ایک یہ کہ جو شخص عُلَماء کو چھوڑ کر جاہِلوں سے مسئلہ پوچھے اور وہ غَلَط مسئلہ بتائیں تو(بتانے والا تو گنہگار ہے ہی) پوچھنے والا بھی گناہ گار ہوگا کہ یہ عالِم کو چھوڑ کر اس کے پاس کیوں گیا، نہ یہ پوچھتا نہ وہ غَلَط بتاتا ۔ دوسرے یہ کہ جس شخص کو غَلَط فتویٰ دیا گیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ بے علم کا مسئلۂ شرعی بیان کرنا سخت جُرم ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح)
واللہ اعلم بالصواب
جاری کردہ؛ محمد عارف رضوی قادری گونڈوی
0 تبصرے